بیجنگ(شِنہوا) چین کے صدر شی جن پھنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن نے گزشتہ روز انڈونیشیا کے سیاحتی مقام بالی میں ہونے والی ملاقات میں تزویراتی اہمیت کے دوطرفہ تعلقات کے امور اور اہم عالمی وعلاقائی مسائل پر کھل کر اور تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔بین الاقوامی ماہرین اور حکام نےشِنہوا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب دنیا تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہے اور انسانیت کو بے مثال چیلنجز کا سامنا ہے، مضبوط اور مستحکم ترقی کے ساتھ چین-امریکہ تعلقات کی بحالی سے دونوں ممالک اور دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔ چائنہ-برازیل سنٹر فار ریسرچ اینڈ بزنس کے ڈائریکٹر رونی لِنس نے کہا کہ چین اور امریکہ کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات ایک اہم اور مثبت اشارہ ہے۔ لِنس نے کہا کہ یہ ملاقات دونوں سربراہان مملکت کے رابطوں کو مضبوط بنانے اور باہمی اور اہم عالمی مسائل پر بات چیت اور انہیں حل کرنے کی کوششوں کو ظاہر کرتی ہے، جس سے عالمی امن اور استحکام کےفروغ کے لیے اعتماد اور امید میں اضافہ ہوا ہے۔پیرس ایسوسی ایشن برائے فرانس چین دوستی کے نائب صدر لیازد بین ہامی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ صدر شی اور بائیڈن چین-امریکہ تعلقات کو مضبوط کریں۔بین ہامی نے کہا کہ دونوں ممالک کو تعاون اور باہمی احترام کے راستے پر گامزن ہونا چاہیے اور ایک پرامن اورتعمیری دوطرفہ تعلق کے قیام کے لیے انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
سربیا میں انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل پولیٹکس اینڈ اکنامکس میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مرکز کی سربراہ کٹارینا زاکیک نے کہا کہ دونوں سربراہان مملکت کی ملاقات صحیح وقت پر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کے لیے سفارتی بات چیت ضروری ہے۔ یو ایس پبلی کیشن ایگزیکٹو انٹیلی جنس ریویو کے واشنگٹن کےبیورو چیف ولیم جونز نے کہا کہ اس ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان ایک رابطہ قائم کرنےمیں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو چین کے ساتھ بھی برابری کی بنیاد پر معاملات حل کرنے چاہیئں ، انہوں نے کہا کہ شی نے ملاقات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ دونوں ممالک کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور امریکہ اور چین کے تعلقات کو اوپر کی جانب گامزن کرنا چاہیے۔
برٹش ایسٹ ایشیا کونسل کے سیکرٹری جنرل الیسٹر مشی نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات انتہائی اہم اور انتہائی مثبت ہے۔