ڈیووس۔ (نیٹ نیوز/اے پی پی):بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی صدر کرسٹالینا جیورجیوا نے کہا ہے کہ عالمی معیشت دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار شدید بحران سے دو چارہے۔
ترک ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہ بحران کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بعد یوکرین میں تنازعات کی وجہ سے پیدا ہوا، جس سے زندگیاں تباہ ہو گئیں، ترقی کی رفتار سست پڑ گئی اور افراط ِ زر میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت دوسری عالمی جنگ ِ عظیم کے بعد پہلی بار سب سےبڑے امتحان سے دو چار ہے۔ عالمی اقتصادی ترقی میں سست روی اور مہنگائی میں اضافے کے رجحان کے پیچھے، کورونا وائرس کی وبا او روس یوکرین جنگ کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عوامل بھی کار فرما ہیں اور یہ پیش رفت بہت بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ بنی نوع انسان کو اس صورتحال میں مالیاتی منڈیوں میں شدید اتار چڑھاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات جیسے بحرانوں کے اجتماعی اثرات کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا سمیت غریب اور تنازعات سے متاثرہ ممالک موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ درجہ حرارت میں اضافہ اور شدید موسمی حالات قیمتی انسانی جانوں کے ضیاء ، نقل مکانی اور براہ راست 2ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصان کے مسائل روز بروز بڑھتے جارہے ہیں ۔ موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات پر قابو پانے کے لئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس حوالہ سے بین الاقوامی معاونت درکار ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ ، وسطی ایشیا سمیت غریب اور تنازعات کے شکار ممالک میں سالانہ بنیادوں پر فی کس اقتصادی نمو میں ایک یا دو فیصد کمی واقع ہو رہی ہے۔
عالمی ادارہ نے بین الاقوامی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں زمین کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ سےموسمیاتی تبدیلی کے نقصانات تیزی سے بڑھنے کا خدشہ ہے ۔ موسمیاتی تغیرات کے انسانی اور معاشی نقصانات میں اضافہ سے غربت کی شرح بڑھنے سمیت اقتصادی ترقی کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لئے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات اور بین الاقوامی مالی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے