پاکستان میں اس وقت ایک افراتفری کی صورتحال ہے ۔ ذرا سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص متفکر ہے کہ اب کیا ہوگا۔سیاستدانوں کی نورا کشتی جاری ہے ۔ عوام اسٹیج پر کرداروں کی بڑھکوں میں منہمک ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ مٹھی میں سے ریت کی طرح پھسل کر اب ہاتھ میں کچھ نہیں بچا ہے ۔ ملک کی اقتصادی صورتحال ہو ، سماجی معاملات ہوں یا بنیادی انفرا اسٹرکچر سب کچھ اختتام کی طرف جاتا محسوس ہو رہا ہے ۔
کیا یہ سب کچھ از خود ہورہا ہے یا اس کے پیچھے ڈوریاں ہلانے والے ہاتھ موجود ہیں، یہ وہ سوال ہے جسے اگر ہم بوجھ لیں تو ہمارے لیے بہت کچھ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے ۔
پہلے تو ملکی سیاسی تھیٹر کے اسٹیج پر موجود کرداروں کو دیکھتے ہیں ، اس کے بعد حالات کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ عمران خان کی پاکستانی سیاست میں شمولیت نہ تو حادثاتی طور پر ہے اور نہ ہی وہ اس لیے سیاستداں بنے کہ انہیں بچپن سے اس کا شوق تھا ۔ عمران خان پر ہی موقوف نہیں ہے ، پاکستانی سیاست ہو یا بھارتی سیاست ، یہاں پر جتنے بھی سیاستداں ہیں ، ان کا بغور مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ایک کی بھی پیدائش قدرتی نہیں ہے ۔ سب کے سب ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہیں ۔ ان سیاستدانوں کے ساتھ ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے گاڈ فادر تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔
سیاستدانوں پر یہ موضوع ایک کتاب کا متقاضی ہے، اس لیے اس موضوع پر گفتگو کسی اور وقت ۔ فی الحال ہم موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہیں ۔ موجودہ صورتحال کو ہم تمام کرداروں کے لیے win – win پوزیشن کہہ سکتے ہیں ۔ عمران خان کو جس وقت ہٹایا گیا ، صورتحال ان کے قابو سے پوری طرح باہر ہوچکی تھی ، زبانی کلامی کے علاوہ اب ان سے ان کے دور حکومت کا کوئی جواب لینے والا نہیں ہے ۔ چونکہ اب وہ حکومت میں نہیں ہیں ، اس لیے کسی چیز کے ذمہ دار بھی نہیں ہیں اور رہی عوام تو وہ شروع سے ہی کمزور یاد داشت کی مالک ہے ، اس لیے اب وہ گنگا نہا چکے ہیں اور دوبارہ سے زیرو پوائنٹ سے اپنی اننگ کھیلنے کے لیے تیار ہیں ۔ دیکھنے میں سب سے زیادہ نقصان ن لیگ یا پی ڈی ایم کا ہوا ہے ۔ خراب معاشی صورتحال میں انہوں نے ازخود اقتدار سنبھالا اور اسے انہوں نے ملک کی محبت قرار دیا ۔ حقیقت میں سب سے زیادہ فائدے میں ن لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں ہی رہی ہیں ۔ قلیل عرصے میں انہوں نے اپنے اوپر سے کرپشن کے تقریبا تمام ہی مقدمات کامیابی سے ختم کروادیے ہیں ، سارے ثبوت ادھر ادھر کردیے ہیں اور اب ان کے پاس چین کے بانسری بجانے کے لیے بہت کچھ بچ گیا ہے ۔
ضمنی فوائد حاصل کرنے والوں میں بیوروکریسی ، ملٹری کریسی اور عدالتی افسران بھی ہیں ، جن سے اب کوئی پوچھنے والانہیں کہ انہوں نے ملک و بیرون ملک اتنے اثاثے کیسے بنا لیے ۔ یہ صورتحال سب کے لیےبہترین اور win – win ہے ۔ اب آگے مزید جو بھی ملے گا ، وہ بونس ہوگا ۔ یہاں تک تو واضح ہے کہ سیاسی اسٹیج پر بڑھکیں مارنے والے یہ سارے کردار ازخود یہ سارے ڈائیلاگ ادا نہیں کررہے بلکہ اس پورے ڈرامے کا اسکرپٹ رائٹر بھی ہے اور ڈائریکٹر بھی ۔ مزید یہ کہ ان سارے کرداروں کے ہینڈلر بھی موجود ہیں ۔ یہاں پر ایک غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید اسٹیبلشمنٹ اس پورے ڈرامے کی اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر ہے ۔ دیکھنے میں تو یہ گمان درست ہے مگر ذرا سا غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس ڈرامے کا ایک کردار ہے اور اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر کا یہ کردار اسے تفویض کیا گیا ہے ۔
تو پھر اس پورے کھیل کا پس پردہ ڈائریکٹر کون ہے ؟ اس سوال کا جواب بوجھنے سے قبل پاکستان کے تھیٹر سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں ۔ پاکستان کے تھیٹر سے باہر نکل کر پوری دنیا پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس افراتفری کا شکار محض پاکستان ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا ہی اس وقت بے یقینی کا شکار ہے ۔ پاکستان کے پڑوس میں ایران اس وقت ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ۔ ایران کے ہنگامے دیکھ کر کراچی میں بشریٰ زیدی کیس یاد آجاتا ہے کہ کس طرح سے ایک ٹریفک حادثے کو لسانی فسادات میں کامیابی سے تبدیل کیا گیا ۔ بشریٰ زیدی کیس میں جس طرح سے پس پردہ قوتوں نے کامیابی سے اپنا کردار ادا کیا ، بالکل اسی طرح ایران میں مہسا امینی کیس میں پس پردہ بیرونی قوتیں اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں اور یوں ایران کو کامیابی سے مفلوج کردیا گیا ہے ۔
افغانستان کی صورتحال تو سب کے سامنے ہی ہے ، داعش کا ہوا موجود ہے جسے کسی بھی لمحے متحرک کیا جاسکتا ہے ۔تھوڑاسا آگے نکلیں تو عراق ، شام ، متحدہ عرب امارات ، یمن، سعودی عرب کی صورتحال سے سب ہی واقف ہیں ۔ پاکستان کے مشرق میں بھارت شدید اقتصادی دباؤمیں ہے ، بنگلا دیش ، برما، سری لنکا ، تھائی لینڈ ، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، جاپان غرض ہر جگہ ایک جیسی ہی صورتحال ہے ۔ چین جیسا ملک بھی شدید معاشی دباؤ میں آچکا ہے ۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے یورپ میں بھی سکون نہیں ہے ۔ سردیاں شروع ہوچکی ہیں اور وہاں پر توانائی کی ابتر صورتحال نے ہر شخص کو بےسکون کررکھا ہے ۔ مہنگائی نے امریکا سے لے کر یورپ تک ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے وہاں پر بھی شدید بے سکونی موجود ہے ۔ غرض دنیا میں کوئی بھی ایک ٹکڑا ایسا موجود نہیں ہے جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہاں کے باشندے امن و سکون کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ کورونا وائرس کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پوری دنیا کے باشندے ایک ساتھ بے سکونی کا شکا ر ہیں ۔ کورونا وائرس ایک کامیاب ایکسرسائز تھی جس میں پوری دنیا کے باشندوں کو ان کے اپنے گھروں میں قید کردیا گیا تھا اور جس نے اس قید کے خلاف کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کی ، اسے نشان عبرت بنا دیا گیا اور بعض صورتوں میں تو انہیں تحلیل ہی کر دیا گیا ۔
یہاں پر یہ سوال منطقی ہے کہ کیا یہ سب کچھ قدرتی ہے یا پھر اسے ایک کامیاب منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا پر نافذ کیا گیا ہے ۔ اس سوال کا جواب بوجھنے سے قبل تمہید ۔ دنیا بھر کو کنٹرول کرنے کا اب نیا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک فرد کو اس طرح سے قید کیا جائے کہ کہیں پر جیل نظر نہ آئے بلکہ نادیدہ زنجیروں کے ذریعے اسے محدود کردیا جائے ۔ جو بھی پابندی لگائی جائے ، اسے اس کے اپنے مفاد میں قرار دیا جائے ۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کی اپنی حفاظت کے نام پر آپ سے کیسی کیسی آزادیاں چھین لی گئی ہیں ۔ کیا ایک چڑیا کو قفس میں بند کرنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ اس سے وہ محفوظ ہوگئی ہے اور اب اسے اپنی غذا کے لیے تگ و دو کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ ان نعمتوں کے جواب میں جو اسے قید کی صورت میں دی گئی ہیں بس اسے اپنے مالک کو خوش رکھنا ہے ۔
دنیا بھر میں آخر یہ صورتحال کیوں پیدا کی گئی ہے ، اسے پیدا کرنے والے کون لوگ ہیں اور وہ چاہتے کیا ہیں ، اس سوال پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔