کراچی (رپورٹ : مجتبی بیگ)موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان سمیت جہاں کہیں بھی قدرتی آفات سے جتنے بھی نقصانات ہوئے ہیں ان کی ٹھیک طرح سے تلافی نہ ہونے کا ذمہ دار بھی امیر طبقہ نکلا۔تفصیلات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ یعنی فضاء میں کاربن کا حد سے زائد اخراج روکنے کے لیے لگائے گئے کاربن ٹیکس کے موثر اطلاق کی راہ میں رکاوٹ بھی دنیا کا امیر ترین بااثر طبقہ ہے جسے معلوم ہے کہ مذکورہ ٹیکس کا ہدف وہی ہوگا کیونکہ اپنی پرتعیش طرز زندگی کے باعث اس کے اور غریب طبقے کے کاربن کے اخراج کی مقدار کا کوئی موازنہ نہیں واضح رہے کہ کاربن کے حد سے زیادہ اخراج کرنے کے باعث موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بھی صنعتی طور پر ترقی یافتہ امیر ممالک ہی ہیں ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق برطانیہ کے ایک فیصد امیر ترین طبقے کے کاربن کا ایک سال کا اخراج دس فیصد غریب ترین آبادی کے بیس سالہ مذکورہ اخراج کے برابر ہے. یعنی سندھ کے حالیہ سیلاب میں شدید متاثر ہونے والے 80 فیصد غریب افراد کا موسمیاتی تبدیلی میں تو کوئی کردار ویسے ہی نہیں تھا اور ساتھ ہی ساتھ سیلاب کے ساتھ آنے والی تکالیف بھی انہیں ہی جھیلنا پڑیں اور بدستور جھیل رہے ہیں. جبکہ سیلاب سے ہونے والے نقصان کی مالیاتی تلافی اور بحالی کے لیے امداد کا کام بھی کاربن ٹیکس کا موثر اطلاق نہ ہونے کے باعث محض امداد خیرات کی محتاج ہوکر رہ گیا ہے. اس وقت دنیا میں کاربن ٹیکس کا مربوط اور پائیدار نظام کہیں نہیں ہے محض 27 ممالک میں مذکورہ ٹیکس مبہم طریقہ کار کے تحت لیا جارہا ہےیہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ کم عرصے میں کاربن کا زیادہ اخراج کرنے والی اور موسمیاتی تبدیلی کی بڑی حد تک قصور وار اشرافیہ تمام ممالک میں ایک ہی طرز زندگی رکھتی ہے اور پاکستان میں تباہ کن سیلاب کی ذمہ دار بھی یہی ماحول دشمن عالمی اشرافیہ ہے۔ ماحول دشمن اس لیے کہ وہ چاہے تو اپنا کاربن کا اخراج سادہ طرز زندگی اختیار کرکے کئی گنا کم کرسکتی ہے مگر اپنی پرتعیش زندگی کی لت کے باعٹ وہ کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں. مثال کے طور پر فضائی سفر کی مہنگی خدمات کا اکثریتی صارف بھی امیر طبقہ ہے جبکہ متوسط طبقہ یہ خدمات ہنگامی سفری ضروریات پوری کرنے کے لیے خریدتا ہے. یہ جاننے کے باوجود کہ فضائی سفر کی عالمی صنعت کا کاربن کے سالانہ اخراج میں 2.5 فیصد حصہ ہے امیر طبقہ اس بنیاد پر مذکورہ خدمات کم کرنے پر آمادہ نہیں کیونکہ فضائی سفر آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی بچت کرتا ہے. گارجین اخبار میں چھپنے والی مذکورہ تحقیق میں یہ بھی ذکر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی لاکر امیروں کی اقلیت نے غریبوں کی اکثریت کا ساری دنیا میں ناطقہ بند کرکے جمہوریت کے حامیوں کی پسندیدہ اس کہاوت کو بھی جھٹلادیا ہے جس کے مطابق اکثریت ایک قوت ہوتی ہے. تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کاربن کا اخراج کم کرنےکے لیے امیر ترین لوگوں کو اپنی تن آسانی انسانی حدود میں لانی ہوگی جس کے لیے وہ کسی طور تیار نہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ پرتعیش زندگی گزارنا ان کا حق ہے جس کا وہ کیوں استعمال نہ کریں.لازمی فضائی سفر, زیادہ پٹرول کی کھپت والی مہنگی کاروں کا استعمال, ایک سے زائد گھر اور سواری رکھنا, ضرورت اور تفریح کے لیے شہر شہر ملک ملک ہوائی جہاز سے آنا جانا, زیادہ گوشت کے پکوانوں والے کھانے کھانا اور مقامی کے بجائے درآمدی اشیاء و خدمات کا استعمال امیروں کی طرز زندگی کی وہ سرگرمیاں ہیں جو ان کے کاربن کے اخراج کو انتہائی بلند سطح پر لے جاتی ہیں. جبکہ غریب اپنی مالی گنجائش کم ہونے کے باعث ان میں سے کسی بھی سرگرمی کا معمول کی زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے.
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے غریب ترین طبقے کے کسی فرد کو امیر ترین طبقے کے ایک فرد کے سالانہ کاربن کے اخراج کی برابری کرنے کے لیے 26 سال درکار ہونگے. جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں کے اخراج میں کتنی وسیع خلیج ہے. اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے طاقتور حلقےکاربن ٹیکس کو ایک معمول کا ٹیکس بنانے پر اس لیے تیار نہیں کیونکہ ایسا ہوا تو اس ٹیکس کا بڑا حصہ تو ان کی جیبوں سے جائے گا جس کی وصولیاں ماحولیاتی بہتری پر خرچ کرنے کا فائدہ امیروں اور غریبوں کو یکساں ہوگا جبکہ امیر یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی امارت کی بقاء فوائد اور وسائل کی من چاہی تقسیم میں ہے منصفانہ میں نہیںموسمیاتی ماہرین کے مطابق غریبوں اور امیروں کے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کاربن ٹیکس کو معمول کے ٹیکسوں کی فہرست میں لانا ہوگا بصورت دیگر امیر اپنی مالی گنجائش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدستور پرتعیش زندگی سے کاربن کا فضاء میں معمول سے زائد اخراج بدستورکرتا رہےگا. امیر کاربن ٹیکس سے بچنے کی یہ تاویل بھی دیتے ہیں کہ وہ پہلے ہی دولت ٹیکس دیتے ہیں جو غریبوں پر لاگو نہیں ہے ایسے میں محض ان کی دولت کی بنیاد پر ایک اور ٹیکس عائد کرنا ان پر زیادتی ہوگی تاہم ایسا کہتے ہوئے یہ بات وہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ دولت ٹیکس سے بچنے کے لیے دولت کم کرنا اور کاربن ٹیکس سے بچنے کا لیے کاربن کا اخراج کم کرنے کا کسی لحاظ سے منطقی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہےایک اندازے کے مطابق کاربن ٹیکس کا اطلاق شفافیت کے ساتھ ہورہا ہوتا تو اس سے ملنے والی رقوم موسمیاتی تباہیوں کی تلافی کے لیے کافی نہیں تو کم از کم متاثرین کی فوری امداد کے لیے تو ضرور کافی ہوتیں.