کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ کچھ بھی ہو ’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھا جائے۔ بدترین نظام بھی برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن تاریخ کے بدلتے دھارے سارے نظام اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔سلطنت برطانیہ کو 90 برس بعد ہندوستان چھوڑنا پڑا تھا۔ چودہ سو سال پہلے جب مکہ کی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خدا کی وحدانیت کا تصور پیش کیا گیا تھا تو انہوں نے اس تصور کو مسترد کرکے کعبہ کے اندر اور باہر رکھے ہوئے اپنے سیکڑوں معبودوں کی جانب اشارہ کیا تھا کیونکہ انہیں یہ لگتا تھا کہ ان کی ریاست، سیاست اور معیشت انہی بتوں کی وجہ سے چلتی ہے۔ممکن ہے اس وقت پاکستان میں بھی کچھ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ ریاست، سیاست اور معیشت، امریکہ، برطانیہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی تابعداری سے ہی چل سکتی ہے۔ تاریخ اسلام ہمیں صرف عقیدت اور مذہب کا سبق ہی نہیں ملتا بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حکومت ، ریاست ، سیاست، سفارت، حکمت اور معیشت کس طرح کام کرتے ہیں۔ عام شہریوں کے تصورات بدلنے سے ان کے طرز زندگی میں بھی فرق پڑتا ہے ۔بالآخر فرسودہ خیالات اور تصورات کی حامل ریاستی مشینری کو بھی نئے تصورات قبول کرکے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔
ملک کے موجودہ سیاسی اورمعاشی حالات کے پیش نظر سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا پاکستان کسی سول وار یا خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے؟
اس سوال کا سادہ سا جواب ہو سکتا ہے ’’ہاں اور نہیں‘‘۔’’ ہاں‘‘ اس لیے کہ حکمراں طبقات کی قانونی طور پر جائز قرار دی جانے والی لا قانونیت، ضد، انا، مالی مفادات اور اقتدار کی طاقت برقرار رکھنے کی چاہت ملک کو بڑے فساد کی جانب دھکیل سکتی ہے۔اس سوال کا جواب’’ نہیں‘‘ اس لیے ہو سکتا ہے کہ پاکستان 23 کروڑ آبادی والا ایک بڑا ملک ہے جہاں مختلف نسلی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وار اکائیوں کے لوگ مل کر رہتے ہیں۔ معمولی اختلافات کے باوجود سڑکوں اور گلیوں میں لوگ ایک دوسرے دست و گریبان نہیں ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور نہ ہی وہ فوج کے خلاف صف آرا ہونے پر آمادہ ہیں۔ البتہ ملک میں ہونے والی زبردستی کی سیاسی تبدیلی اور معاشی تباہی میں موجودہ عسکری قیادت کے مبینہ کردار اور حکمرانوں کے انتخاب پر ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کی برطرفی سے عمران خان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور جو گندے بندے مسند اقتدار پر بٹھائے گئے ہیں انہیں عوام نے قبول نہیں کیا ہے۔ اگر عمران خان حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیے جاتے تو وہ شاید آئندہ انتخابات میں مانگے تانگے کے امیدواروں کے باوجود اپنی حکومت نہ بنا پاتے۔ تاہم اب صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے جس امیدوار کو الیکشن میں کھڑا کریں گے اس کی جیت کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز حکومت آخر وقت تک اقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہے تاکہ ان کی سیاسی ساکھ کچھ بہتر ہو جائے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی ملک میں فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں اور کارکنان کی والہانہ محبت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔ اس سے قبل بے نظیر بھٹو، نوازشریف اور الطاف حسین کے لیے بھی کارکنوں اور ہمدردوں میں اسی قسم کا جوش و خروش نظر آتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگر اس وقت سیاسی انتشار بڑھا اور لانگ مارچ سیکورٹی فورسز کے مابین اسلام آباد میں خونریز تصادم ہو گیا تو پھر ہنگامہ آرائی پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اس ہنگامے تک پہنچنے سے پہلے ہی اس سے بچنے کے بارے میں سوچ لیا جائے۔ سول وارکی صورتحال تک پہنچنے کی کئی وجوہات ہیں اور اسے روکنے کے کئی طریقے ہیں جن میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ قیادت کے چہرے تبدیل کر دیے جائیں۔ ممکن ہے آئندہ مہینے سے حالات تبدیل ہونا شروع ہو جائیں ۔ گزشتہ دنوں جنرل ندیم انجم اور جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس میں لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ فوج نے سیاست سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران جنرل ندیم انجم نے یہ بھی کہا ہے کہ لوگ فوج پر اعتماد کریں۔ اس بات کا ایک مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ بعض عسکری قائدین کے فیصلوں پر اعتماد نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس اعتماد کو بحال کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ان فوجی حکام تفتیش شروع کر دی جائے جن کے نام مختلف جرائم کے حوالے سے لیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے وزیر آباد میں خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ کے ساتھ ساتھ میجر جنرل فیصل نصیر کا نام بھی لیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس حملے کو بھی جھوٹ اور سوچا سمجھا منصوبہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر کے اندراج میں عمران خان جیسے مقبول لیڈر کو بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو باتیں ہو رہی ہیں اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے خلاف تو ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے لیکن میجر جنرل فیصل نصیر کو ایف آئی آر میںاقدام قتل کا ملزم نامزدکرنے میں دقت ہے۔اگرفوجی قیادت کو عام پولیس سے مسئلہ ہے تو ملٹری پولیس ایف آئی آر درج کرے۔
ملک میں جاری سیاسی و عسکری کشمکش سے یہ ہوا ہے کہ عام شہریوں کا فوج سے رومانس دھیما ہو گیا ہے اور وہ بھی دوسرے عام سرکاری ملازمین، ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز اور کاروباری لوگوں کی صف میں کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ فوج کے اعلیٰ افسران بھی عام سیاست دانوں کی طرح بوقت ضرورت متضاد باتیں کر سکتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب باوردی اعلیٰ عہدیداروں نے من گھڑت باتیں بیان کی ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال وفاقی وزیر داخلہ کی ہے جنہیں اینٹی نارکوٹکس فورس نے لاہور کے قریب موٹر وے پر گرفتار کیا تھا اور ان کی گاڑی سے 15 کلو ہیروئن برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا۔ اس واقعے کی تصدیق خود اینٹی نارکوٹکس فورس کے ڈی جی میجر جنرل عارف ملک نے کی تھی۔ تاہم بعد کے حالات نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ہیروئن دراصل آٹے کی بوری تھی جو غریب رانا ثناء اللہ اپنے گھر لے کر جا رہے تھے۔ آج جب اسٹیبلشمنٹ نے انہیں وفاقی وزیر داخلہ کے عہدے پر بٹھایا ہے تو اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ باوردی میجر جنرل عارف ملک نے پریس کانفرنس میں غلط بیانی کی تھی۔ اگرایسا نہ ہوتا تورانا ثناء اللہ آج وفاقی وزیر داخلہ بننے کے بجائے جیل میں ہوتے۔
فوجی جنرلوں کے جھوٹ کے واقعات سابق جنرل بھی سناتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب نے اپنے ایک ویلاگ میں مشرقی پاکستان کی جنگ کے حوالے سے بتایا کہ جنرل یحییٰ خان کو مشرقی پاکستان کی عسکری صورتحال کے بارے میں غلط اطلاعات فراہم کی گئی تھیں۔ ان جنرلوں کو معلوم تھا کہ اگر مشرقی پاکستان میں بھارت کے خلاف جنگ چھیڑی گئی تو پاکستان کو شکست ہو جائے گی لیکن اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود جنرل یحییٰ خان کو مشرقی پاکستان کے درست عسکری حقائق نہیں بتائے گئے۔
اس وقت کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں عزتیں سر بازار نیلام ہونے کے کنارے پر ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی کی خلوت کی فلم انہیں اور ان کے اہل خانہ کو دکھائی جا چکی ہے۔ اس سے قبل جج ارشد ملک کی عیش و نشاط کی فلمیں سوشل میڈیا پر نشر کی جا چکی ہیں۔ جبکہ مریم نواز یہ کہہ چکی ہیں کہ ان کے پاس بہت سے لوگوں کی ویڈیوز ہیں۔ ویسے پاکستانی سیاست میں بیہودہ ویڈیوز اور تصاویر کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے ۔جنرل یحییٰ خان کی مے نوشی اور عیاشی کے بارے میں بہت سی باتیں لکھی گئی ہیں لیکن قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ایسے بہت سے قصے انٹیلی جنس کی فائلوں میں دفن ہوں گے۔آج جس ویڈیو پر ہنگامہ ہو رہا ہے وہ کوئی انہونی بات نہیں ہے اس سے قبل بھی کئی اہم شخصیات اور ان کی اہل خانہ کی فلمیں بننے کی باتیں سینہ بہ سینہ گردش کرتی رہی ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام آباد میں اعلیٰ پیمانے پر جسم فروشی کا دھندہ ہوتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں کے آس پاس ایسی خواتین منڈلاتی رہی ہیں جن کی وجہ شہرت کچھ اور بھی رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام آباد میں کئی لوگ موبائل فونز میں معروف خواتین کی نازیبا ویڈیوزلیے پھرتے ہیں۔
ویڈیو اسکینڈل سے قبل صحافی ارشد شریف کا قتل موضوع بحث بنا رہا۔ ان کی ناگہانی موت کا درد ملک کے طول و ارض میں محسوس کیا گیا، کیونکہ ارشد شریف، سچ کی تلاش میں نکلا تھا لیکن تاریک راہوں میں مارا گیا۔ لیکن یہ پاکستان کا کوئی پہلا صحافی نہیں ہے جسے سچ لکھنے اور بولنے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ارشد شریف خود ایک نیول افسر کا بیٹا اور آرمی آفیسر کا بھائی تھا۔انہوں نے سوات اور وزیرستان میں آرمی آپریشنز کی جس طرح کوریج کی ہے وہ کم ہی لوگوں نے کی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ارشد شریف صحافت کا ہی نہیں بلکہ فوج کا بھی اثاثہ تھے لیکن انہیں مراعات یافتہ طبقات کی کھلی مخالفت کی وجہ سے ملک بدر ہونا پڑا اور پھر جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔ تاہم جس بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی ہے ویسے جنازے کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ارشد شریف کا تعلق متوسط طبقے کے بجائے مراعات یافتہ طبقے سے ہوتا تو ان کے ساتھ یہ سلوک نہ ہوا ہوتا ورنہ برا منانے والے گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔ شاید ارشد شریف کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ انہیں بھی یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ برسوں سے بدعنوان اور چورقرار دیے جانے والے لوگ راتوں رات پارسا کیسے قرار دے دیے گئے۔
شہباز، زرداری، مولانا اور اتحادیوں کی حکومت بننے کے بعدراندۂ درگاہ کیے جانے والے الطاف حسین بھی نظر التفات کے انتظار میں ہیں، وہ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں گا گا کر کہہ چکے ہیں
’’ہم سے بھول ہو گئی، ہم کا معافی دے دیو‘‘۔
کراچی کی سیاست کے حوالے سے بات کریں تو ایسا ہی ایک جھوٹا سچا واقعہ جناح پور کے نقشوں کی برآمدگی کا بھی ہوا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ کچھ لوگ مذاق میں اپنے پنجابی، پٹھان دوستوں سے جناح پور اور ویزہ لے کر کراچی آنے کی باتیں کیا کرتے تھے لیکن الیکشن جیتنے کے باوجود ایم کیو ایم کی قیادت کبھی بھی مہاجروں کو پاکستان سے علیحدہ وطن بنا لینے کے منصوبے پر قائل کرنے میںکامیاب نہیں ہوئی تھی۔کراچی میں برسوں تک جاری رہنے والے فوجی اور رینجرز کے آپریشن کے دوران سڑکوں پر فوجی بکتر بند گاڑیاں بھی لائی گئیں اور حسن اسکوائر جیسے مصروف چوراہے پر ٹینک بھی لا کر کھڑے کیے گئے تھے۔ گو کہ مہاجراس وقت ایک مشکل وقت سے گزر رہے تھے اور انہیں تعصب کا بھی شکوہ تھا لیکن اس کے باوجود کراچی کے عام شہریوں نے فوج کو اس طرح برے بھلے نہیں کہے تھے جس طرح گزشتہ دنوں لاہور اور پشاور میں کہے گئے ہیں۔
گو کہ ایم کیو ایم کی قیادت نے جناح پور کے نقشوں کو جھوٹ قرار دیا تھا لیکن اس جھوٹ نے برسوں تک ایم کیو ایم کے کارکنوں کا اور مہاجروں کا پیچھا کیا ہے۔ جولائی 1992ء میں ان نقشوں کے متعلق آئی ایس پی آر میں پریس بریفنگ کے دوران کی گئی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ یہ نقشے اور اس سے متعلق مبینہ دستاویزات کوٹری میں ایم کیو ایم کے یونٹ آفس سے برآمد کی گئی تھیں۔ جس سے معلوم ہوا تھا کہ ایم کیو ایم ہانگ کانگ کی طرز پر کراچی کو ایک علیحدہ ریاست بنانا چاہتی ہے۔ ان منصوبے سے متعلق صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو بھی آگاہ کیا گیا تھا ۔ بعد ازاں یہ کہا کہ بریگیڈیئر آصف ہارون نے اپنے منتخب کردہ رپورٹرز کو بلا کر جناح پور منصوبے کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔ جس کی خبر اکتوبر 1992ء میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی گئی تھی۔اس خبر کی اشاعت پرمہاجروں میں جو تشویش پیدا ہوئی تھی اس سے ایم کیو ایم کی قیادت آگاہ تھی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ متنازع نقشہ اور اس سے متعلق تمام دستاویزات کراچی کے کور ہیڈ کواٹرز اور جی ایچ کیو میں آج بھی محفوظ ہوں گی۔ تاہم اس معاملے میں بریگیڈیئر امتیاز کا وہ بیان زیادہ مشہور ہوا جس میں انہوں نے جناح پور کے منصوبے اور نقشوں کی برآمدگی سے انکار کیا تھا۔ البتہ دوسرے ریٹائرڈ فوجی افسران ایسے نقشوں کی برآمدگی کا اعتراف کر تے رہے ہیں۔اگر بریگیڈیئر امتیاز کی بات کو صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئی ایس پی آر کے پلیٹ فارم سے بے بنیاد باتوں پر مبنی خبریں بھی جاری کی جا سکتی ہیں۔
کراچی کو مسلسل تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کی جو پالیسی عشروں پہلے بنائی گئی تھی وہ کسی نہ کسی صورت میں اب بھی جاری ہے۔ 1984ء میں کراچی کو شیعہ سنی فسادات کی آگ میںجھونکا گیا تھا تاکہ شہر کی آبادی کو فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کر دیا جائے۔ اس کے بعد شہر کو لسانی اور صوبائی تعصبات کی آگ میں دھکیلا گیا۔ 15 اپریل 1985ء کو سر سید کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی ایک بے لگام منی بس کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئی تھی، جس پر کالج کی طالبات نے سڑک پر آکر احتجاج کرنا شروع کیا لیکن پولیس کے طالبات پر تشدد کے نتیجے میں یہ ناظم آباد میں قائم اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ اور پولیس کے مابین تصادم میں تبدیل ہو گیا تھا۔ تاہم پولیس اور طلبا کے مابین ہونے والا یہ تصادم شام تک مہاجر اور پٹھان تصادم میں تبدیل ہوکر پورے شہر میں پھیل چکا تھا۔ جس کی وجہ سے بہت سی طالبات کو کالجوں کے قریب گھروں میں پناہ لینا پڑی تھی اور حالات سازگار ہونے پر ان کے گھر والے انہیں وہاں سے لے کر گئے تھے۔ یہ کراچی میں ہونے والا دوسرا پٹھان مہاجر فساد تھا جو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابات میں جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن میں شکست کے بعد شروع ہوا تھا۔جن لوگوں نے ہنگاموں کے وہ دن دیکھے ہیں وہ اس فساد کا الزام کیپٹن گوہر ایوب پر لگاتے ہیں جنہوں نے اپنے والد جنرل ایوب خان کی انتخابی فتح کا جلوس نکالا تھا جس نے لالو کھیت کے علاقے میں گھروں کو آگ لگا کر اور فاطمہ جناح کے حامیوں کو قتل کرکے فتح کا جشن منایا تھا۔ تاہم یہ ساری باتیں عام لوگوں کے الزامات کی حد تک ہی محدود رہی ہیں اورگوہر ایوب پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دی گئی ۔
گو کہ ایم کیو ایم والے ٹارچر سیلوں کی حقیقت سے انکار کرتے ہیں لیکن لالو کھیت کی طرف پیلی کوٹھی اور لانڈھی میں مہاجر خیل کے نام تو کچھ لوگوں کو اب بھی یاد ہوں گے جہاں مخالفین کو لے جا کر مرمت کرنے کی کہانیاں سنی جا رہی تھیں۔ میجر کلیم پر تشدد کا کیس بھی لانڈھی میں ہی ہوا تھا جس کے بعد 1992ء میں کراچی میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا تھا۔آپریشن کلین اپ کے اسی دور میں غریب آباد ریلوے پھاٹک کے نزدیک سے آرمی کے ایک کپتان کی ٹارچر زدہ لاش ملی تھی جو رات کے وقت اپنی گاڑی میں وہاں سے گزر کر اپنے گھر جا رہا تھا۔آپریشن کلین اپ سے قبل ایم کیو ایم کے بعض کارکنان بتاتے تھے کہ ایم کیو ایم حماس، حزب اللہ اور اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کے فلسفے اور طرز عمل سے متاثر ہے۔تاہم تب بھی ان سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ یہاں کون سی اسرائیلی فوج قابض ہے جس سے لڑنے کے لیے کارکنوں کو مسلح کیا جا رہا ہے؟ چند برس پہلے جب سرکاری املاک پر بعض یونٹ آفس کی غیر قانونی عمارتوں کو مسمار کیا گیا تو انہیں بچانے کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا حالانکہ ان میں سے بعض عمارتیں اس طرح بنائی گئی تھیں کہ مورچے کے طور پر بھی کام آ سکیں۔ کراچی برسوں سے قتل اور خونریزی کے دور سے گزر رہا ہے۔ آج اگرچہ شہر میں کوئی سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ فساد نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے کراچی کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا انہوں نے کراچی کو کچی آبادیوں اور قبضہ مافیا کا گڑھ بنا دیا ہے۔ اسٹریٹ کرمنلز دندناتے پھرتے ہیں جوکسی بھی شخص کو قتل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ غیر مقامی پولیس اہلکاروں کو جرائم روکنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ آج سیاسی افق پر پاکستان کی آزادی تو بلند کیے جا رہے ہیں لیکن کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی ہے کہ گزشتہ چار عشروں کے دوران کراچی اور اہل کراچی کے ساتھ کیا کیا گیا ہے ۔ان چار عشروں میں کسی نہ کسی وجہ سے کراچی کی سڑکوں پر ہزاروں افراد کا خون بہا ہے۔ فسادات اور دہشتگردی کی وارداتوں کے دوران اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئی ہیں اور ٹرانسپورٹ نذر آتش کی گئی ہیں۔بہت سے لوگ در بدر ہوئے ہیں۔ قبضہ گروپوں نے سرکاری اور نجی زمینوں اور جائدادوں پر قبضے کیے ہیں یا با اثر لوگوں نے عام شہریوں کو اپنی جائدادیں اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ آج پاکستان جن معاشی مشکات کا شکار ہے اس کا درست تخمینہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ گزشتہ چالیس سال کے دوران کراچی میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا بھی اندازہ لگا لیا جائے۔