پاکستانی کرکٹ ٹیم ابھی اپنے آخری گروپ میچ کے لیے میدان میں اتری بھی نہیں تھی کہ سیمی فائنل میں پہنچنے کی اس کی ُامیدیں ہالینڈ نے روشن کردیں جس نے ایڈیلیڈ اوول میں اپنے سے بڑی جنوبی افریقہ کی ٹیم کو 13 رنز سے ہراکر ہلچل مچا دی۔ہالینڈ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپ سیٹ کرنے کا فن خوب آتا ہے۔ اس سے قبل اس نے دو مرتبہ انگلینڈ کو شکست دے رکھی تھی۔
جنوبی افریقی ٹیم نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ آئی سی سی ایونٹنس میں وہ راہ سے بھٹک جاتی ہے، اسی لیے چوکر کہلات ہے۔ہالینڈ کی اس یادگار جیت کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے سیمی فائنل میں قدم رکھنے کے لیے بنگلہ دیش کو ہرانا لازمی ہوگیا تھا اور اس نے اس بار کوئی غلطی کیے بغیر 5 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرکے آخری چار ٹیموں میں جگہ بنالی۔پاکستانی ٹیم کے لیے ایڈیلیڈ کا میدان ایک بار پھر اچھی خبر لے آیا۔ یہ وہی میدان ہے جہاں 1992 کے عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم کی قسمت بدلی تھی۔
انگلینڈ کے خلاف وہ صرف 74 رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی لیکن بارش کی وجہ سے دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا تھا اور یہی ایک پوائنٹ اسے آگے لے گیا اور اب تیس سال بعد پاکستانی ٹیم نے اس گراؤنڈ سے اہم موڑ لیا ہے۔شکیب الحسن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور بنگلہ دیش کی ٹیم 8 وکٹوں پر 127 رنز تک پہنچ پائی۔ پاکستانی ٹیم انہی گیارہ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اتری جس نے جنوبی افریقہ کے خلاف اہم جیت حاصل کی تھی۔
بنگلہ دیشی اوپنرز نجم الحسین اور لٹن داس اسی ٹورنامنٹ میں اپنی بہترین اننگز کھیل چکے ہیں۔ لٹن داس کو اوپنر کی حیثیت سے آزمانے کا تجربہ انڈیا کے خلاف میچ میں کامیاب رہا تھا۔وہ شاہین شاہ آفریدی کےخلاف بھی جارحانہ موڈ میں نظر آرہے تھے لیکن آفریدی کا تجربہ انھیں شان مسعود کی مدد سے واپسی کا راستہ دکھا گیا اور وہ اس مرتبہ صرف 10 رنز بنا سکے۔نجم الحسین اور سومیا سرکار نے محمد وسیم کے پہلے ہی اوور میں تیرہ رنز بٹورے لیکن اس اوور میں شاداب خان نجم الحسین کا کیچ لینے میں ناکام رہے۔بنگلہ دیش نے پاور پلے میں ایک وکٹ گنوا کر 40 رنز بنائے تھے۔ نجم الحسین اور سومیا سرکار کی 52 رنز کی شراکت شاداب خان کے ہاتھوں ختم ہوئی جن کا 20 رنز پر کیچ شان مسعود نے لیا۔بنگلہ دیش کے لیے سب سے بڑا دھچکہ کپتان شکیب الحسن کا پہلی ہی گیند پر شاداب خان کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہونا تھا۔ امپائر نے انھیں آؤٹ دیا تو شکیب الحسن نے فوراً ریویو لے لیا لیکن تھرڈ امپائر نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ شکیب الحسن اس فیصلے پر مطمئن نہیں تھے اور وہ گراؤنڈ سے جانے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن تھرڈ امپائر کے فیصلے کے مطابق گیند بلے سے نہیں لگی تھی بلکہ بلا زمین پر لگا تھا جس کی وجہ اسنکو میٹر پر نشان دکھائی دیا تھا۔عفیف حسین نے شاداب خان کو ہیٹ ٹرک سے باز رکھا۔ شاداب خان نے اپنے چار اوورز کا اختتام 30 رنز دو کھلاڑی آؤٹ پر کیا۔نجم الحسین نے اس ٹورنامنٹ میں اپنی دوسری نصف سنچری مکمل کی لیکن 54 رنز پر افتخار احمد کی آف سپن انھیں بولڈ کرگئی۔ بنگلہ دیش کی چوتھی وکٹ 91 رنز پر گری۔افتخار احمد نے گیند پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہوئے بنگلہ دیشی بیٹسمینوں کو باندھ کر رکھا اور اپنے تین اوورز میں ایک وکٹ کے حصول کے لیے صرف 15 رنز دیے۔شاداب خان اور افتخار احمد کی مؤثر بولنگ نے درمیانے اوورز میں سکور کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان دونوں کے سات اوورز میں صرف 45 رنز بنے اور اس کے بدلے انھوں نے 3 وکٹیں بھی حاصل کیں۔شاہین شاہ آفریدی اپنے دوسرے سپیل میں واپس آئے اور تیسرے اوور میں یارکر کے ذریعے مصدق حسین کو بولڈ اور نورالحسن کو محمد حارث کے ہاتھوں کیچ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے اپنی چوتھی وکٹ تسکین احمد کو بابراعظم کے کیچ کے ذریعے حاصل کی۔شاہین شاہ آفریدی نے 22 رنز دے کرچار وکٹیں حاصل کی ہیں جو ان کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بہترین بولنگ ہے۔اس سے قبل ان کی بہترین بولنگ تین روز پہلے ہی جنوبی افریقہ کے خلاف رہی تھی جس میں انہوں نے 14رنز دے کر3 کھلاڑی آؤٹ کیے تھے؛پاکستانی اننگز کے پہلے ہی اوور میں دل کی دھڑکین تیز بھی ہوئیں اور بیٹھنے بھی لگیں۔ رضوان نے تسکین احمد کو چھکا مارا اور اگلی ہی گیند پر وہ وکٹ کیپر نورالحسن کے ہاتھوں کیچ ہونے سے بچ گئے۔اس موقع سے فائدہ اٹھا کر رضوان اور بابراعظم اس ٹورنامنٹ میں اپنی سب سے بڑی 57 رنز کی اوپننگ شراکت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے قبل اس ٹورنامنٹ میں دونوں کی سب سے بڑی شراکت محض 16 رنز کی تھی۔
بابراعظم نے سنگل فگر سے باہر نہ نکلنے کا جمود ضرور توڑا لیکن 33 گیندوں پر 25 رنز بنا کر وہ نسوم احمد کے خلاف اپنی وکٹ نہ بچا سکے۔صرف چار رنز کے اضافے پر سکور پر رضوان احمد نے بھی اپنی وکٹ عبادت حسین کی گیند پر گنوائی۔ انھوں نے 32 رنز اتنی ہی گیندیں کھیل کر بنائے۔
پاکستان نے 10 اوورز کے اختتام پر دو وکٹوں پر صرف 56 رنز بنائے تھے۔ محمد نواز نجم الحسن کی تھرو پر رن آؤٹ ہونے سے بال بال بچے لیکن دوسری بار یہ غلطی پاکستانی ٹیم کو بہت مہنگی پڑگئی۔لٹن داس کی تھرو پر وہ صرف 11 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوگئے۔ حارث نے پاکستانی ٹیم کے ڈگ آؤٹ میں پائی جانے والی بے چینی کو عبادت حسین کے ایک ہی اوور میں چوکے اور چھکے کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی جس کے بعد انھوں نے تسکین احمد کی گیند کو بھی باؤنڈری کے باہر پہنچادیا۔وہ صرف اٹھارہ گیندوں پر ایک چوکے اور دو چھکوں کی مدد سے 31 رنز کی اہم اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے تو جیت صرف7 رنز کی دوری پر رہ گئی تھی۔شان مسعود کے شکیب الحسن کے ایک اوور میں دو چوکے پاکستانی ٹیم کے لیے آکسیجن ثابت ہوئے لیکن ہدف تک پہنچنے سے قبل پاکستانی ٹیم کو افتخار احمد کی وکٹ سے بھی محروم ہونا پڑا۔پاکستانی ٹیم نے جب مطلوبہ سکور پورا کیا تو گیارہ گیندیں باقی رہتی تھیں