گلوبل پِنڈ( نواز طاہر)
نجی ٹی وی چینل فائیو و روزنامہ خبریں کی خاتون رپورٹر صدف نعیم لانگ مارچ کی کوریج کے دوران شہید ہوگئیں ، منوں مٹی تلے وہ کچھ نہیں بتا سکتی کہ وت کیسے واقع ہوئی ، بھانت بھانت کی بولی بولی جارہی ہے اور حقائق کو جھٹلایا جارہا ہے ، اس میں پی ٹی آئی ، پنجاب حکومت ، صدرف نعیم کے اہلِ خانہ اور خود صحافتی برادری بھی شامل ہے حالانکہ دیانتداری سے بات کی جائے تو صدف نعیم کی
موت کا ذمہ دارقرار نہیں دیا جاسکتا ، اس موت کی ذمہ دار خبریں و چینل فائیو کی انتظامیہ ہے ، پی ٹی آئی کا صرف اتنا کردار ہے کہ اس نے من پسند صحافی چُن چُن کر کنٹینر پر بٹھائے، کچھ کو نظر انداز کیا ، رینکنگ کی دوڑ میں صدف نعیم زندگی ہار گئیں ۔جو لوگ اس پر سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ غیر مناسب رویہ ترک کر دیں ، جو یہ باتیں پھیلا رہے ہیں کہ گارڈ کے دھکے سے صدف گریں ، وہ بھی اپنے الفاظ پر شرمندگی محسوس کریں ، جو موقف صدف کے شوہر نعیم نے پولیس کو تحریری بیان میں دیا کہ وہ سڑک ڈیوائیڈر سے گریں اور کنٹینر تلے آگئیں یہ بھی حقائق کے برعکس ہے ،
یہ حادثہ ہے ، یہ حادثہ اس طرح پیش آیا کہ صدف نے جب کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش کی تو سیکیورٹی گارڈ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا ، وہ توازن برقرار نہ رکھ سکیں ، پاﺅں پھسلا اور جس ہاتھ سے گارڈ کو پکڑا تھا وہ چھوٹ گیا اور وہ سڑک پر گرتے ہیں رینگتے کنٹینر کے پہیئے تلے کچلی گئیں ، ایک لمحے کے کچھ حصے میں وہ اللہ کے حکم پر لبیک کہہ گئیں ۔
سوال یہ ہے کہ ایک خاتون رپورٹر کسی سواری اور کیمرے کے بغیر صرف اپنے موبائیل فون پر کس طرح ریٹنگ کا مقابلہ کرسکتی تھی ؟ اس نے نجی ٹی وی چینلز کی مختلف گاڑیوں اور پی ٹی آئی کے رہنماﺅں( زیادہ تر خواتین ) کی گاڑیوں پر لاہور سے اپنی موت کے مقام تک کیسے سفر کیا ؟یہ وہ لوگ جانتے ہیں جو لانگ مارچ میں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ کیا میڈیا مالکان کی تنظیموں سے یہ سوال کرنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ اگر ان کی بہن بیٹی ، بیوی ، بہو یا کوئی رشتے دار خاتون سواری اور کیمرے کے بغیر پیدل لانگ مارچ کور کرسکتی ہے؟ جس ادارے میں کارکنوں کو مہینوں تنخواہ نہ دی جائے ، اس میں ایسی ریٹنگ سے صرف اموات ہوتی ہیں جو دکھائی دیتی ہیں ، جو اموات تنخواہ نہ ملنے سے ہوتی ہیں ان کا شمار کوئی کرے گا
؟ بالکل نہیں ، نہ حکومت ، نہ میڈیا مالکان اور کرکنوں کی تنظیمیں جن کا میں خود بھی حصہ ہوں ، اس موت کا تکنیکی طور پر کسی کو ذمہ دار قراردیا جاسکتا ہے تو خبریں ، چینل فائیو کی انتظامیہ کو ، اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہئے ، پی ٹی آئی نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ جس نے لانگ ارچ کے ساتھ جانا ہے وہ اپنی سواری کا انتظام خود کرے، پی ٹی آئی نے البتہ اس سانحے کے بعد نجی ٹی وی روز کی ونڈ اسکرین توڑے جا نے اوراس پر احتجاج کرنے پر صحافیوں کے ساتھ بھر پوری بدسلوکی ، گالی گلوچ کیا ، اور اس گاڑی کو بعد میں بھی توڑنے کی کوشش کی ، سول پارچات میں سیکیورٹی اہلکاروں نے ان صحافیوں اور گاڑی کو تحفظ فراہم کیا ، بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ روز ٹی وی کے کیمرا مین خالد رمضان کی نوکری بھی خطرے میں پڑی گئی ہے ،
میری اطلاعات کے مطابق روز ٹی وی کی طرف سے قصور وار خالد رمضان کیمرا مین کو ٹھہرایا جارہا ہے ، یہ ٹی وی چینل سردار خان نیازی کا ہے اور وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا تعلق ، ہمدردی رکھتے ہیں اس کے ذکر کی ضرورت نہیں ، یہ بس تحریکِ انصاف کا ساتھ دینے والوں کی ذہنیت ہے ، وہ چھوٹی سطح کا لیڈر ہو یا بڑی سطح کا یا کوئی میڈیا مالک جیسے سردار خان نیازی ۔۔۔ کارکن صحافی اور آزادانہ رائے رکھنے والے صرف اپنے آپ سے سوال کریں اور خود جواب دیں کہ ہم کس معاشرے میں کیسے جیتے اور کیسے مرتے ہیں ۔ ؟