لاڑکانہ (بیورورپورٹ) نیب کے پر کٹتے ہی اینٹی کرپشن لاڑکانہ میں بے لگام، ڈپٹی ڈاریکٹر اینٹی کرپشن سرکل لاڑکانہ نے مبینہ طور پر رشتیدار کے کہنے پر چیئرمین اینٹی کرپشن سندھ کی اجازت اور آگاہی کے بغیر ہی جامعہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کی 22 گریڈ کی سابق وائس چانسلر کے دور کا ریکارڈ طلب کرلیا، جامعہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے لیگل ایڈوائزر نے اینٹی کرپشن کے عمل کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہوئے قانونی جواب رجسٹرار یونیورسٹی کو بھجوا دیا تفصلات کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن لاڑکانہ کے ڈپٹی ڈاریکٹر غلام سرور ابڑو کی اجازت سے انسپیکٹر اینٹی کرپشن سیل لاڑکانہ فرحان بھٹو کی جانب سے رجسٹرار جامع بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سے 26 اکتوبر کو سابق وائس چانسلر پروفیسر انیلا عطاالرحمان کے ٹینور 2019 سے 2022 تک کی کانٹریکٹ، ڈیلی ویجز اور پکی ملازمتوں کا ریکارڈ اینٹی کرپشن دفتر لاڑکانہ لانے کا لیٹر جاری کیا گیا تھا، جبکہ تمام کامیاب امیدواروں کے کوائف اور ریکارڈ بھی طلب کیے گئے تھے اینٹی کرپشن کی جانب سے یہ لیٹر مبینہ طور پر نامعلوم درخواست گزار امیر حسین آریجو کی جانب یونیورسٹی کی ملازمہ سعدیہ سرہیو کو غیر قانونی طور پر بطور اکائونٹنٹ بھرتی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے جاری کیا گیا تھا، تاہم ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن لاڑکانہ کی جانب سے لیٹر چیئرمین اینٹی کرپشن سندھ ڈاکٹر نواز شیخ کی اجازت اور آگاہی کے بغیر ہی جاری کیا گیا جبکہ وائس چانسلر گریڈ 22 کا افسر ہوتا ہے جس کے دور سے متعلقہ کسی بھی انکوائری کے لیے چیئرمین اینٹی کرپشن کی اجازت درکار ہوتی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن لاڑکانہ غلام سرور ابڑو پروفیسر حاکم علی ابڑو کے قریبی عزیز ہیں اور پروفیسر حاکم علی ابڑو کو 29 ستمبر کو وزیر اعلی سندھ کی جانب سے قائم مقام وائس چانسلر جامعہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی نامزد کیا گیا تھا جبکہ وہ سینئیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے، جس کو اسی فہرست میں پہلے نمبر پر شامل پروفیسر اکبر بھنڈ نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے انہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہی عہدے سے دستبردار کرتے ہوئے سندھ حکومت کو کوئی سینئیر وائس چانسلر تعینات کرنے کے احکامات دیتے ہوئے پیٹیشن کی سماعت 26 اکتوبر کو کرنے کے احکامات دیئے تھے تاہم یہ دوسری بار تھا کہ پروفیسر حاکم علی ابڑو کو انکے عہدے سے عدالت نے دستبردار کیا تھا ماضی میں بھی انکے سابق وائس چانسلر پروفیسر انیلا عطاالرحمان سے شدید اختلافات رہے تھے، ذرائع کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن نے رشتیداری کی بنیاد پر انہی اختلافات کے پیش نظر پروفیسر انیلا عطاالرحمان کے دور کا ریکارڈ بغیر بالا افسران کی اجازت اور اطلاع کے طلب کیا ہے اور تاریخ بھی 26 اکتوبر ہی رکھی گئی ہے، جب سندھ ہائی کورٹ میں پروفیسر اکبر بھنڈ کی پیٹیشن کی سماعت ہوگی، اس سلسلے میں لیگل ایڈوائزر جامعہ بینظیر میڈیکل یونیورسٹی نے یونیورسٹی رجسٹرار کو اینٹی کرپشن کے لیٹر کا جواب تیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیٹر میں جس جس یونیورسٹی ملازمہ کا ذکر کیا گیا ہے،
وہ یونیورسٹی میں اکائونٹنٹ نہیں بلکہ بطور پرسنل اسسٹنٹ 2017 میں یونیورسٹی میں بھرتی ہوئی تھیں جو کہ وائس چانسلر پروفیسر اصغر چنہ کا دور کا جبکہ پروفیسر انیلا عطاالرحمان نے 2019 میں بطور وائس چانسلر اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے، اس لیے نامعلوم درخواست گزار کی بے بنیاد شکایت پر یونیورسٹی کا چار سال کا ریکارڈ نہیں دیا جاسکتا، لیگل ایڈوائزر یونیورسٹی کا جواب رجسٹرار یونیورسٹی پروفیسر عبدالرعوف خاصخیلی کو تو بھجوایا جا چکا ہے، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ رجسٹرار یونیورسٹی پروفیسر عبدالرعوف خاصخیلی پر بھی چند با اثر افراد کی جانب سے دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ لیگل ایڈوائزر کا جواب محکمہ اینٹی کرپشن کو دینے کی بجائے 26 اکتوبر کو ریکارڈ سمیت پہنچ جائیں اس دبائو کے باعث رجسٹرار یونیورسٹی خود بھی جامعہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سے نوکری چھوڑ کر پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نواب شاہ میں بطور پروفیسر نوکری کرنے کے خواہاں ہیں اور حالیہ نواب شاہ جا کر انٹرویو بھی دے چکے ہیں، با اثر افراد سے خوف کے باعث نام ظاہر نہ کرنے پر ایک یونیورسٹی پروفیسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ سے عہدے سے دستبردار ہونے کے باوجود پروفیسر حاکم علی ابڑو وائس چانسلر ہونے کی تمام مراعات استعمال کر رہے ہیں یونیورسٹی وائس چانسلر کی فارچیونر گاڑی اور ایک ریڈ سوزکی سوئیفٹ دیگر گاڑیاں اور ڈرائیورز انہی کے پاس ہیں جن کا پیڑول اور دیگر مراعات روزانہ کی بنیاد پر انہیں دیا جا ریا ہے، وہ مسلسل یونیورسٹی انتظامیہ کو گھر بیٹھے ہدایات بھی دے رہے ہیں اور اپنے اثر رسوخ کے باعث انہیں یعقین ہے کہ سندھ حکومت کوئی نہ کوئی طریقہ کا اختیار کر کے انہی کو تیسری بار بھی جامعہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعینات کرے گی ذرائع کے مطابق انہیں پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اس لیے وزیر اعلی سندھ بھی جامعہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کی 2008 سے جاری تباہی پر خاموش تماشائی ہیں، وائس چانسلر پروفیسر انیلا عطاالرحمان کو انتقامی کاروائی کا نشانہ صرف اسی لیے بنایا جاتا رہا ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرتی رہیں اور ماضی کی 401 جعلی بھرتیوں کا کیس بھی انہوں نے ہی ایف آئی اے کو بھیجا جب کہ یونیورسٹی کی اندرونی انکوائری کمیٹی اور کمشنر لاڑکانہ کی سرپرستی میں الگ انکوائری کمیٹی سمیت ایف آئی اے نے بھی ان بھرتیوں کو جعلی قرار دیا تھا جس کی رپورٹ وزیر اعلی سندھ کو 3 سال قبل بھجوائی گئی تھی جس پر کوئی ایکشن تو نہیں ہوا بلکہ سندھ حکومت کی جانب سے الٹا یونیورسٹی انتظامیہ کو ان بوگس ملازمین کو سینیٹ اور سینڈیکیٹ سے مستقل کروانے کا دبائو بھی ڈالا گیا جبکہ سابق وائس چانسلر پروفیسر اصغر چنہ نے بھی اسی دبائو کہ باعث اپنا استعیفی دیا تھا لیکن جاتے جاتے ان جعلی ملازمین کے پے رول پر دستخط کر گئے تھے جو کہ سال ہا سال سے کروڑوں روپئے تنخواہیں لے رہے ہیں جن میں سے کئی آج تک یونیورسٹی حاضری لگانے بھی نہیں آئے اور گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں