تحریر : ساجد آرائیں
پاکستان فلم تاریخ میں کردار مولا کا آغاز 1975 میں ریلیز ہوئی مصنف ناصر ادیب اور ہدایتکار حسن عسکری کی فلم "وحشی جٹ” سے ہوا تھا جس میں سلطان راہی نے مولا جٹ کا کردار ادا کر کے اس فلم کو پنجابی سینما کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا تھا۔ "وحشی جٹ” پاکستان میں پنجابی فلموں کا ٹیک اوور اور اردو فلموں کا ڈاؤن فال تھا۔ یہ فلم اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کا سیکوئیل مصنف ناصر ادیب اور ہدایتکار یونس ملک کی فلم "مولا جٹ” کے نام سے بنایا گیا جس کو پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی فلم کا درجہ حاصل ہے۔ ناقص فلم میکنگ و میٹریل کے باوجود اس فلم نے اپنے مکالموں اور تین مرکزی کرداروں سلطان راہی ، مصطفی قریشی اور چکوری بیگم کی امر کردار نگاری کی بدولٹ کلٹ کلاسک کا درجہ حاصل کیا۔ "وحشی جٹ” اور "مولا جٹ” کے بعد "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” اس سلسلے کی تیسری کڑی ہے۔
اگرچہ "مولا جٹ” کے بعد ان کرداروں پر فلمیں "مولا جٹ ان لندن” ، "جٹ گجر تے نت” , مولا جٹ تے نوری نت” اور "روشن جٹ” کے نام سے بنائی گئیں لیکن تاریخ ہمیشہ "وحشی جٹ” اور "مولا جٹ” کے سحر میں سر نگوں رہی ہے۔ اگرچہ فلم "وحشی جٹ”.کو بھی ہدایتکار پرویز رانا نے شان صاحب کو لیکر "وحشی جٹ” کے نام سے ہی سن 2002 میں ایز اٹ از فریم ٹو فریم ریمیک کیا تھا لیکن یہ فلم بدترین ناکامی کا شکار ہوئی تھی۔ اب ہدایتکار بلال لاشاری نے اس سلسلے کو ایک نئی تکنیک سے آگے بڑھایا ہے۔ جس طرح فلم "وحشی جٹ” کی کہانی کا فلم "مولا جٹ” کی کہانی سے کوئی تعلق نہیں تھا اسی طرح "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” کی کہانی کا بھی "مولا جٹ” کی کہانی سے کوئی تعلق نہ ہے۔ لیکن مرکزی کردار مولا جٹ سے ہی مستعار لئے گئے ہیں۔
فلم "مولا جٹ” میں مولا جٹ کا جو کردار سلطان راہی نے ادا کیا وہ اس فلم میں فواد خان کے سپرد کیا گیا ہے۔ مصطفی قریشی کا نوری نت کا کردار حمزہ علی عباسی نے ادا کیا۔ آسیہ کے مکھو جٹی کے کردار میں ماہرہ خان، چکوری بیگم کے دارو نتی والے کردار میں حمائمہ ملک ، ادیب کے ماکھا جٹ والے کردار میں گوہر رشید ، کیفی کے مُودے کے کردار میں فارس شفیع اور سیماں بیگم کے دانی والے کردار میں راحیلہ آغا جلوہ گر ہیں
اگر اس فلم کو پاکستان فلم تاریخ کی مچ اوایٹڈ much awaited فلم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس فلم کا ٹیزر اور پھر ٹریلر ریلیز ہوا تو ہر طرف دھوم مچ گئی تھی۔ ایک تہلکہ تھا جو رونما ہوا۔ جہاں ایک طرف لوگوں نے پسندیدگی کی تاریخ رقم کر دی وہیں دوسری طرف فلمی پنڈتوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فلم تو پنجابی ہے لیکن کلچر پنجاب کا نہیں ہے۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بلال لاشاری کیا جادو کیا منتر اور کیا طلسم برپا کرنے والا تھا۔ جس نے پاکستان میں فلم میکنگ کے معنی تبدیل کر دئیے جس نے معیار کا ایک ٹارگٹ سیٹ کر دیا کہ یہاں تک پہنچو گے تو اب ڈائریکشن کہلائے گی ورنہ نہیں۔ وہ بلال لاشاری پاکستان میں تاریخ رقم کرنے جا رہا تھا اور ہم ماضی کو رو رہے تھے۔ مجھے یہ فلم ایک رقیب کی طرح لگتی تھی۔ جیسے پرانی "مولا جٹ” میری معشوق تھی اور یہ فلم میری معشوق اڑا لے جائے گی۔ لیکن "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” دنیا ہی الگ ہے۔ جس کا ہماری معشوق "مولا جٹ” سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ تامل فلموں باہو بالی کی مانند کوئی مافوق الفطرت فلم ہو گی لیکن یہاں بھی سب چکرا کر رہ گئے کہ "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا اور پاکستان میں اپنی نوعیت کی منفرد ترین فلم ہے جس میں انتہائی لاجک کے ساتھ ہر کردار ، ہر سیچوایشن اور ایکشن کے تمام مناظر جسٹیفائیڈ ہیں۔ فلم میں ایک بھی شارٹ غیر ضروری نہیں ہے۔ گرپ، فلم پر گرفت، اسکرین پلے اور حیران کن تک جدید فلم میکنگ نے نہ صرف تمام خدشات دور کئے بلکہ ہمارے جیسے ان خدشات کو رکھنے والوں کو شرمندہ بھی کیا ہے
فلم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہر فرعون کے لئے موسی ضرور ہے۔ جہاں ایک طرف لاقانونیت ہے، وحشت ہے، ہولناکی ہے ظلم کی انتہا ہے وہیں دوسری طرف اس ہولناک سلطنت سے کہیں دور ایک خاموش لیکن طاقت سے بھرپور کردار ہے جو اپنی ذاتی دشمنی کے کرودھ میں جل رہا ہے۔ اور جب ذاتی دشمنی اور لوگوں کے انصاف کے لئے لڑنے کے دو پلڑے سامنے آئے تو وہ اپنی طاقت کو لوگوں کے لئے انصاف کے پلڑے میں ڈال دیتا ہے۔ ذاتی دشمنی کی تسکین اپنے آپ ہو جاتی ہے۔ فلم میں پنجابی زبان ، پنجابی کردار اور پنجاب کا خطہ صرف ہمیں فلم بتانے کے لئے بتایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ زمانہ ہی کوئی اور ہے جب نہ تو بجلی تھی نہ بجلی کے کھمبے نہ کرنسی نوٹ، نہ ہی گولہ بارود نہ گن نہ کوف ، نہ پسٹل نہ بم، نہ پولیس ، اور نہ ہی عدالتیں ۔ فلم میں جو جیل دکھائی گئی ہے وہ انتہائی جسٹیفائیڈ اور یوں دکھائی گئی ہے, ایسے انتظام انصرام کے ساتھ دکھائی گئی ہے کہ آپ بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بلال لاشاری نے کہانی سے لیکر اسکرین پلے تک اور کیمرہ پلیسنگ سے لیکر ڈائریکشن تک ایک ایسی دنیا تخلیق کی ہے جس کا بے تاج بادشاہ کوئی اور نہیں بلکہ خود بلال لاشاری ہے جس نے ناظر کو یوں فلم کے سحر میں مبتلا کیا کہ وہ کہانی اور کرداروں میں خود بخود سرایت کر جاتا ہے۔ ناظر کی نظر کے ساتھ انتہائی مہارت سے کھیلتے ہوئے سینما کے اندھیرے میں بلال لاشاری نے ثابت کیا ہے کہ وہ جدید دور کا ایسا ڈائریکٹر ہے جو لوگوں کو اپنا جو بھی وژن تخلیق کرکے دے گا لوگ دیوانہ وار اسکے پیچھے چل پڑیں گے۔
فلم کے مکالمے جناب ناصر ادیب نے لکھے ہیں اور کیا کمال لکھے ہیں۔ چار سے پانچ آئیکونک مکالمے پرانی مولا جٹ کے ہی لئے گئے ہیں۔
نواں آیا ایں سوہنیا۔
گجدے بڑے نیں پر وسدا کوئی نئیں۔
قتل ہونا چاہنا واں ۔
ایس عمرے مر کے ماواں نے روگ نئیں لائی دا ۔
اور ایک دو اور مکالمے جو کہ سسپنس کے لئے یہاں نہیں لکھے جا رہے۔ اس فلم کے مکالمے اور ان مکالموں کی سیچوایشن بار بار کلیپ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
سب سے اہم شعبہ ، کیونکہ یہاں پرستاروں کی اپنے محبوب ستاروں کے ساتھ جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔ ہر پرستار چاہتا ہے کہ اسکا پسندیدہ ستارہ سب سے زیادہ چمک کے ساتھ چمکے۔ لیکن میں یہاں پرستاری سے بالاتر ہو کر اپنی ذاتی رائے دوں گا کہ حمزہ علی عباسی نے دنیائے کردار نگاری میں وہ مثال قائم کی ہے جو مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ نوری نت کے کردار میں حمزہ علی عباسی نے جو فیس اور آئی ایکسرپشنز دے دئیے ہیں، جس فٹ ورک اور باڈی لینگوئج کا مظاہرہ کر دیا ہے وہ شائد حمزہ خود بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کمال کر دکھایا ہے۔ مولا جٹ کے کردار میں فواد خان جچے لیکن حمزہ علی عباسی محض جچے نہیں بلکہ ہر کردار پر چھا گئے۔ انکے مکالموں کی ادائیگی اس قدر لاجواب ہے اس قدر بے مثال ہے کہ جسکی مثال نہیں ملتی۔ یہ پرفارمنس کا مارجن تھا یا ہیوی ویٹ مکالموں کی عطا، حمزہ کے حصے میں آنے والی پرفارمنس اور مکالمے اور حمزہ کا انکو پرفارم کرنا اور ادا کرنا ، وہ بھی پنجابی زبان اور پنجابی لب و لہجے میں ، یہ واقعی بے مثال ہے۔ فلم میں دوسری بڑی پرفارمنس حمائمہ ملک نے دی ہے۔ دارو نتنی کے کردار میں ایک اکھڑ مزاج عورت ، یہ کیمرہ پلیسنگ تھی یا ڈائریکشن ، اسکرین پر حمائمہ ملک کی جو ہیبت جو ہولناکی نظر آئی وہ نہایت شدید نظر آئی۔ فواد خان کا مرکزی کردار زیادہ بڑے اسکرین پلے کا متقاضی تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گنڈاسے کو پہلی دفعہ دیکھنے کا منظر ہو یا اس منظر کے بعد فواد خان کا ہر منظر، فواد خان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ماہرہ خان کے لئے یہاں سب سے بڑی آزمائش پنجابی لُکس اور پنجابی لب و لہجہ تھی جسکو کمال مہارت سے ڈائریکٹر نے محدود رکھا۔ اگر سینز اور مکالموں کی گنتی کریں تو ماہرہ خان کی نسبت حمائمہ ملک کے زیادہ ہیں۔ اسکرین کو انتہائی خوبصورت اور بین الاقوامی مارکیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرہ خان نے اپنے کردار کے ساتھ انصاف کیا اور اسکرین کو خوبصورت رکھنے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا۔ وحشت اور خوبصورتی کی اس آمیزش سے بھرپور فلم میں خوبصورتی کی ذمہ داری ماہرہ خان کے ذمہ تھی جو انہوں نے بہرحال نبھائی۔ شفقت چیمہ ، فارس شفیع اور راحیلہ آغا کے علاوہ جس کردار اور جس پنجابی لب و لہجے نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ علی عظمت ہیں۔ گوگے کے کردار میں علی عظمت نے بے ساختہ اور نیچرل اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ بابر علی اور ریشم کی اسپیشل اپئیرنس بھی قابل تعریف ہے۔
پاکستان فلم تاریخ کا سب سے بڑا اور زبردست ہیوی ساؤنڈ ڈیزائن، سب سے بڑے سیٹ ، پورے کا پورا گاؤں تعمیر کرنا اور اسے کلائمکس میں تباہ و برباد کرنا اور سب سے بڑھ کر فریمنگ۔ مکمل طور پر ڈائریکٹر اسپیشل اس فلم میں بلال لاشاری نے فلم میکنگ کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان فلم تاریخ اب دو ادوار میں تقسیم ہے۔ "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” سے پہلے کا پاکستان اور "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” کے بعد کا پاکستان۔ بلال لاشاری جانتے تھے کہ نوری نت کی ہیبت کیا ہے لہذا کیمرہ مین شایان لطیف شیخ نے کیمرہ پلیسنگ یوں سیٹ کی کہ پاکستانی سینما کے ویوزل ہی تبدیل کر کے رکھ دئیے۔ ایسی فریمنگ اور کیمرہ پلیسنگ پاکستان میں پہلی بار ہے۔ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً یہ ہالی وڈ اسٹائل فلم ہے جسکی میکنگ ، فریمنگ اور کیمرہ پلیسنگ آپکو بڑے عرصے تک اس فلم کے نشے میں رکھے گی۔ مولا جٹ کا پہلی بار گنڈاسے کو دیکھنا ہو یا اسکے بعد گھڑ سواری، گنڈاسے کو زمین کے ساتھ گھسیٹتے ہوئے دکھانا ہو یا نوری نت کو جیل سے باہر لاتے وقت کیمرہ پلیسنگ ، ان مناظر نے جہاں ایک طرف بہت زیادہ کلیپ حاصل کی وہیں سینما کے ایک نئے کرزمہ کی بنیاد رکھی ہے۔ سینما پر مناظر کو اس انداز میں دکھایا جا سکتا ہے یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے۔
یہاں ڈائریکٹر کی ذہانت ، کیمرہ مین کی جادوگری اور فوکس پُلر کی ایک مہارت کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ فلم کے ایک سین میں نوری نت جیل میں کردار کو اس قدر زور سے دیوار پر مار کر پٹختا ہے کہ جس میٹریل سے دیوار بنی ہے وہ میٹریل دیوار سے جھڑ رہا ہے اور کئی فریم تک دیوار سے اتر کر رجسٹر ہو رہا ہے۔ فریم میں دونوں کریکٹرز بھی موجود ہیں، دونوں فوکس میں ہیں اور میٹریل کا دیوار سے گرنا بھی فوکس میں ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی اور باریک سے باریک چیز کو بھی اس قدر مہارت سے ایکسپوز کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ کس قدر پروفیشنل لوگ ہیں۔ فلم میکنگ کے حقیقی داعی جنہوں نے اس قوم کو ایک ایسی فلم دی ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے گی۔ دنیا دیکھے گی کہ پاکستان میں اس قدر بڑا تخلیقی کام بھی کیا جا سکتا ہے۔ کہ پاکستان میں عالمی معیار کی ایسی فلم بھی بنائی جا سکتی ہے۔
اس فلم میں جگہ جگہ کلیپ ہے۔ فواد خان کا انٹرڈکشن سین ہو یا حمزہ علی عباسی کا، دونوں انٹریز تباہ کن ہیں۔ یہاں تک کہ فلم میں گنڈاسے کی انٹری پر بھی لانگ کلیپ ہے۔ فواد خان کا کوٹ مٹھن جانا ، اور وہاں جا کر جیسے ہی گنڈاسے پر جس انداز میں نظر پڑنا کم سے کم مجھے تو آپے سے باہر کرنے کے لئے کافی تھا۔ اسکے بعد فواد خان کی ہر انٹری ایکشن سے بھرپور اور فل آف کلیپ ہے۔ حمزہ علی عباسی کے جیل میں مناظر ، ایک کریکٹر سے یہ کہنا کہ "سوہنیا روٹی چھڈ کے تینوں کھالواں۔۔ ؟ زبردست تالیوں کی گونج تھی۔ جیل سے باہر آنا ، ہائی اسپیڈ شارٹ اور لو بیس low base پر کیمرہ ۔۔ انتہائی باکمال، فواد خان اور اور حمزہ علی عباسی کی ٹکر ، ماہرہ خان اور فواد کی محبت کی نوک جھونک پر لوگوں کا رسپانس اور حمائمہ ملک کے دو ایسے وائلنس سے بھرپور مناظر کہ خواتین نے ایکدم اسکرین سے نظریں ہٹا لیں ، بہت بڑے امپیکٹ ہیں اور پاکستان فلم ہسٹری میں پہلی بار ہیں۔۔
اور پھر سب سے بڑی کلیپ۔۔ فلم میں سب سے بڑی کلیپ۔۔ فلم ختم ہو گئی، اچانک ختم ہوگئی ، سینما لائٹس آن ، اور فلم کا آخری ڈائیلاگ ، آخری مکالمہ، اسکرین پر "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” کا آخری ڈائیلاگ ، اور اس ڈائیلاگ پر لوگوں کا کھڑے ہو کر مبہوت کافی دیر کھڑے رہتے ہوئے کلیپ کرتے رہنا۔۔۔۔شائد بھرپور کلیپ کے ساتھ ساتھ اس ڈائیلاگ پر میری طرح کچھ اور لوگوں کی آنکھیں بھی نم ہوئی ہوں۔۔۔۔۔