کراچی (رپورٹ:اسلم شاہ)کراچی کے دو اضلاع (کیماڑی و غربی) میں واٹر بورڈ کی لائنوں پر 20 غیر قانونی ہائیڈرنٹس کا کاروبار کا انکشاف ہوا ہے،جس کی نہ تحقیقات، نہ افسران و عملے کے خلاف کاروائی،نہ مقدمات درج ہوئے ہیں۔دو اضلاع میں 100 سے زائد ہائیڈرنٹس کاغیر قانونی کاروبار عروج پر ہے۔یہ ہائیڈرنٹس سابق انچارچ راشد صدیقی نے گذشتہ پانچ سال قبل قائم کیا تھا۔ان ہائیڈرنٹس سیل، اینٹی تھیفٹ سیل، واٹر ٹرنک مین، متعلقہ سپریٹنڈنٹ انجینئرز، ایگزیکٹیوز انجینئرز اور میٹر ڈویژن کی نگرانی میں چلنے والے سے 5 لاکھ 50 لاکھ روپے تک ماہانہ بھتہ وصول کررہے ہیں۔اس کے علاوہ پولیس کے ساتھ انتظامیہ اپنا حصہ الگ وصول کررہی ہے،غیر قانونی ہائنڈرنٹس اور اس میں ملوث افسران و عملے کی تحقیقات کے بجائے صرف کاروائی کے نام پر کروڑوں روپے بھتہ، رشوت، کمیشن، کک بیک وصول کے ساتھ گھناونا کاروبار میں ملوث پانی مافیا کے کارندوں پر مقدمات درج نہ ہوسکے۔یہ 20 غیر قانونی کنکشن منگھوپیر، اورنگی، پیرآباد اور مواچھ کو تھانے کی حدود میں ہائیڈرنٹس کا گھناونا کاروبار عروج پر ہے۔
ان میں ضلع کیماڑی کے علاقے مواچھ کو میں رئیس گوٹھ، کاٹھو گوٹھ،ضلع غربی کے علاقے پیر آباد میں قصبہ کالونی، اورنگی ٹاون میں کٹی پہاڑی، ایم پی آر کالونی اور منگھوپیر کے علاقہ میں مائی گاڑی، الطاف نگر، خیبرآباد گوٹھ، یاہو گوٹھ، عمر گوٹھ، مہران سٹی، غازی گوٹھ، رمضان گوٹھ، ماربل فیکٹرایریا، ریتی پاڑہ،پختون آباد، گرم چشمہ،یار محمد گوٹھ، ہمدرد یونیورسٹی،حب کینال اور کھڈہ حب کینال کے مقام پر یہ غیر ہائیڈرنٹس چل رہے ہیں۔دلچسپ امر یہ کہ یہ ہائیڈرنٹس پانی کے لائنوں میں فراہم ہونے والے نظام 24،33،48اور66 انچ قطر سے پائپ لائن پر موجود واٹر بورڈ کے سسٹم سے غیر قانونی ہائیڈرٹنس چلایا جا رہا ہے۔ان علاقوں میں پانی کے بحران کا ذمہ دار بھی متعلقہ افسران و عملہ ہیں۔ضلع غربی اور ضلع کیماڑی میں پانچ سال سے زائد عرصہ چلنے والے غیر قانونی ہائیڈرٹنس اور اس میں ملوث افسران و عملے کی تحقیقات کے بجائے صرف کاروائی کی ہدایت پر کروڑوں روپے رشوت،کمیشن، کک بیک وصول کے ساتھ گھناونا کاروبار میں ملوث پانی مافیا کے کارندوں پر مقدمات درج نہ ہوسکے۔اس ضمن میں پہلی بار مینیجنگ ڈائریکٹر رفیق قریشی کے دستخظ سے جاری ہونے والے خط (MD/KWSB/2022/208) نے کراچی پولیس کے سربراہ کو واٹر ٹرنک مین سے براہ راست پانی کا سسٹم جاری ہونے کے انکشاف پر کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی غربی،اسی طرح ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کیماڑی کو غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی فہرست ارسال کی گئی ہے،
لیکن انہوں نے بھی چمک کے آگے آنکھیں بند کر لی ہیں۔انچارچ ہائیڈرنٹس سیل اعظم خان نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے متعلق کہا ہے کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے،وہ صرف سرکاری ہائیڈرنٹس کے انچارچ ہیں۔ انچارچ اینٹی تھیفٹ سیل عبد الواحد شیخ کو ہدایت کی گئی ہے،جنہوں نے نمائندہ سے اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کاروائی ہو گی۔واٹر بورڈ میں انتظامیہ تبدیل ہوئی ہے۔نئی انتظامیہ کی مشاوات سے کاروائی کی جائے گی۔تاہم انہوں نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی تعداد بتانے سے گریز کیا ہے۔ یاد رہے کہ اینٹی تھیفٹ سیل کے قیام کا مقصد غیر قانونی کام کے خلاف فوری کاروائی کا اختیار ہے لیکن گذشتہ کئی سالوں سے چلنے والے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کاروائی کی اجازت طلب کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپنا بھتہ بڑھانے کی سفارش ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ 23 اگست کو ایم ڈی واٹر بورڈ کے خط پر انچارچ عبد الواحد شیخ کے پر اعتماد افسر شکیل نے تمام ہائیڈرنٹس سیل سے بھتہ کی رقم کو ہر ہفتے دوگنا تک بڑھانے کا سفارش کی ہے جبکہ اس کے متعلقہ ایگزیکٹو انجینئرز،انچارچ اینٹی تھیفٹ سیل، واٹر ٹرنک مین کے افسران بھی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دونوں اضلاع میں پانی کے بحران کا مجرم انہیں ہی بتایا جاتا ہے۔کراچی میں پانی (Water Mafia) مافیا جیت گئے۔سرکاری چھ ہائیڈرنٹس کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کیماڑی اور نیشنل لاجسٹک سیل کے دو ہائیڈرنٹس بھی چل رہے ہیں۔
ان چھ ہائیڈرنٹس کو نیپا چورنگی ضلع شرقی کو نبی داد کی کمپنی جی این بردارز،سخی حسن ضلع وسطی شیر محمد کی کمپنی قاسم رضا اینڈ کمپنی، کرش پلانٹ منگھوپیر ضلع غربی غلام نبی کی کمپنی محمد علی واٹر ٹینکر، صفورا چورنگی ضلع ملیر ملک جیند کی کمپنی ایچ ٹو اور لانڈھی ضلع کورنگی احمد طارق کی کمپنی ایس اے طارق،شیرپاؤ ضلع جنوبی سابق چیف سیکریٹر ی سندھ فضل الرحمن کے داماد بلال عرف بنٹی،ہائیڈرٹنس کے منافع بخش کاروبار میں سیاسی،سرکاری افسران دیگر بااثر شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے۔ہائیڈرنٹس کے گھناؤنے کاروبار میں براہ راست سابق نگران وزیراعلیٰ سندھ و سابق چیف سیکریٹر ی فضل الرحمان کا داماد بلال عرف بنٹی سارے کھیل میں براہ راست ملوث ہے۔وہ کرش پلانٹ منگھوپیر کا ہائیڈرنٹس میں حصہ دار بھی ہے۔ہائیڈرنٹس کی ناجائز آمدنی کا تمام فنڈز فضل الرحمن کے گھر سے تمام اداروں، سیاسی شخصیات سمیت دیگر اداروں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔اب ادارے میں ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر فنانس رفیق قریشی کو کراچی سسٹم(لوٹ مار کا سسٹم) کا نگران مقرر کردیا گیا ہے۔چیف انجینئر سعید شیخ،سابق انچارچ راشد صدیقی،تابش رضا،رحمت اللہ مہر،الہی بخش بھٹو سمیت 11 سہولت کار بھی کراچی سسٹم میں موجود ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے۔آصف علی زرداری نے کراچی سسٹم کے تحت ہائیڈرنٹس کا کنٹرول اور اس سے ہونے والے کمیشن کی تقسیم کا نگران سابق نگران وزیر اعلی و چیف سیکریٹری سندھ فضل الرحمن کو بنایا گیا ہے۔وہ کئی سالوں سے ہائیڈرنٹس کے معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے داماد بلال عرف بنٹی کو تمام ہائیڈرنٹس کے امور کے لئے مقررکیا تھا۔کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ جس کا کام شہر میں پانی کی ضروریات فراہم کرنا ہے جس میں وہ ناکام ادارہ بن چکا ہیں۔پانی کیلیئے گھروں میں شہری ترس گئے ہیں۔ناغے کا نظام رائج کرکے پانی ٹینکرز کے ذریعے کھلے عام فروخت کیا جارہا ہے اور پانی مافیا کراچی سسٹم کے تحت لوٹ مار کا گھناونا کاروبار عروج پر ہے۔نئے ایم ڈی صلاح الدین کیلیئے چارج سنھبالنے کے بعد اس ادارے میں چلنے والی بدعنوانی کا گھناونا کاروبار کی روک تھام کا پہلا ہدف اور امتحان ہے۔