کراچی( بیورو رپورٹ ) کراچی میں اسٹریٹ کرائمز مسلح ڈکیتوں اور لوٹ مار کی وجہ سے شہری عدم تحفظ محسوس کر رہے ہیں۔ ڈکیتوں میں کئی خاندانوں کے کمانے والوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں جس کی وجہ سے لاتعداد خاندانوں کی معاشی حالت انتہائی بتر ہوگئی ہےاور جرائم کرنے والے بے خوف و خطر آزادی سے گھوم رہے ہیں یہ بات کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کو کب اقبال نے شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کے ایک جائزہ اجلاس کی کیپ کےدفترمیں صدارت کرتے ہوئےکہی۔انہوں نے کہاجو شہری اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ لائسنس لینا چاہتا ہے حکومت اسے فوری طور پر اسلحہ لائسنس جاری کرے اور جن لوگوں کے پاس اسلحہ لائسنس ہے انہیں اپنی اور خاندان کی حفاظت کے لیے استعمال کرنےکی ترغیب دی جائے۔ اگر بڑھتی ہوئی ڈکیتی کی وارداتوں پر قابو نہ پایا گیا تو شہری مارو یا مر جاؤ کے مقلولے پر عمل نہ شروع کر دیں کیونکہ جب عدم تحفظ کا احساس بڑھنا شروع ہوتا ہے تو بہت سے عوامل جنم لینے لگتے ہیں
اس لیے ضروری ہے کہ سندھ پولیس کے ساتھ رینجرز بھی اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کرے۔ کوکب اقبال نے کہا کہ پولیس کمیونٹی کے لیے محلہ ایسوسی ایشن اپنا کردار ادا کریں انہوں نے کہا کہ اکتوبر سے فروری تک شادیوں کا سیزن ہوتا ہے لوگ اپنے پیاروں کے لیے مارکیٹوں میں شاپنگ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کراچی کے بازاروں میں رونق دوبارہ لوٹ آئی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ خریدار خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ کوکب اقبال نے کہا کہ رینجرز کے سیکٹر کمانڈرز اور علاقے کے ایس ایس پی اپنے علاقوں میں کھلی کچہری لگائیں تاکہ ان کو بروقت وارداتوں کا علم ہوسکے 15 کے نظام کو موثر بنانے کی ضرورت ہے مختلف علاقوں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کی جائے جس علاقے میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے وہاں کے علاقہ ایس ایچ او کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے علاقوں میں اپنی حفاظت کے تحت گیٹ لگانے کی دوبارہ اجازت دی جائے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنے کی اجازت ہو تاکہ معلوم ہو سکےبلاجواز واردات کی نیت سے علاقے میں گھومنے والوں کی نشاندہی ہو سکے قانون اگر مضبوط ہو گا اور سزائیں جلدی جائیں گی تو یقینا وارداتوں میں ملوث افراد اپنے انجام تک پہنچ سکتے ہیں۔
کوکب اقبال نے کہا کہ پولیس اور شہری مل کر ہی جرائم پر قابو پا سکتے ہیں بشرطیکہ دونوں کا ایک دوسرے پر اعتماد کا رشتہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑھتے ہوئے جرائم سے نہ صرف معشیت پر اثر پڑتا ہے بلکہ مہذب معاشرے کو غیر مذہب ہونے میں وقت نہیں لگتا اس لیے ضروری ہے کہ شہریوں میں احساس تحفظ بحال کیا جائے۔