تہران( نیٹ نیوز )
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اخلاقی پولیس کے ہاتھوں زیرحراست خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک گیراحتجاجی مظاہروں سے فیصلہ کن انداز میں نمٹنے کا اعلان کیا ہے اوراب تک 700 سے زیادہ افراد کوگرفتار کیا جا چکا ہے۔ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق ہفتے بھر جاری رہنے والے مظاہروں میں پینتیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔انسانی حقوق کے کارکنان اوردوسرے ذرائع نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں پچاس سے زیادہ ہلاکتوں کی اطلاع دی ملک کے 31 میں سے بیشتر صوبوں میں مظاہرے پھیل چکے ہیں۔
ایرانی خبررساں اداروں نے ہفتے کے روزخبردی ہے کہ بحیرہ کیسپین کے کنارے واقع شمالی صوبہ گیلان میں 739 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔جمعہ کے روز سےایران کے کئی شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی سطح پر منظم ریلیاں نکالی گئیں اورفوج نے وعدہ کیا کہ وہ بدامنی میں کارفرماعناصرمیں موجود’دشمنوں‘ کا مقابلہ کرے گی۔ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے ہفتے کے روز کہا کہ ایران کو’’ان لوگوں کے ساتھ فیصلہ کن انداز میں نمٹنا چاہیے جو ملک کی سلامتی اور امن کی مخالفت کرتے ہیں‘‘۔ابراہیم رئیسی شمال مشرقی شہرمشہد میں بدامنی کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران ہلاک ہونے والے بسیج رضاکار فورس کے ایک رکن کے اہل خانہ سے ٹیلی فون پر بات کر رہے تھے۔
صدر نے احتجاج ،عوامی نظم ونسق اورسلامتی میں خلل ڈالنے کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور پُرتشدد واقعات کو فساد قرار دیاہے۔ایران میں یہ مظاہرے ایک ہفتہ قبل شمال مغربی ایران میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کے جنازے کے موقع پرشروع ہوئے تھے۔ انھیں خواتین کے لباس کی نگرانی اورحجاب کے قوانین نافذ کرنے والی اخلاقی پولیس 13ستمبر کو گرفتار کیا تھا اور وہ اخلاقی پولیس کے زیرحراست کوما میں چلی گئی تھیں اور 16ستمبر کو وفات پا گئی تھیں۔ان کی موت نے ایران میں شخصی آزادیوں پر پابندی، خواتین کے لیے سخت ضابطہ اخلاق اور پابندیوں سے دوچار معیشت سمیت دیگر مسائل پرغم و غصے کو جنم دیا ہے۔
خواتین نے ان مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے اپنے نقاب کوتارتار کیاہے اور جلایا ہے اور بعض عورتوں نے اپنے سر کے بال تک کاٹ لیے ہیں۔انھوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف سخت نعرے بازی کی ہے۔یادرہے کہ 2019 میں ایندھن کی قیمتوں پراحتجاجی مظاہروں کے بعد ایران میں حکمران طبقے کے خلاف یہ دوسری بڑی احتجاجی تحریک ہیں۔تب ایرانی سکیورٹی فورسز کے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں 1500 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ ایران میں انقلاب کے بعد تاریخ کا سب سے خونریز تصادم تھا۔