تحریر:محمد قیصر چوہان
پاکستان کے ایک تہائی رقبے پر محیط تاریخ کے بدترین سیلاب کے بعد کامنظر بڑاہی خوفناک ہے ۔سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی میں کئی ماہ لگیں گے لہٰذا اس عرصے میں لاکھوں متاثرہ خاندانوں کو عارضی رہائش گاہوں ہی میں قیام کرنا ہوگا جہاں صاف پانی ، معیاری غذا ، مچھروں اور دیگر حشرات الارض سے بچاﺅکے مناسب بندوبست سمیت زندگی کی بیشتر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اس کے نتیجے میں کروڑوں سیلاب زدہ افراد میں گوناگوں امراض کے پھیلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔سیلاب متاثرہ علاقوں میں ڈنگی، ملیریا،ہیضہ ، پیٹ درد ،آنکھوں اور خارش سمیت دیگر امراض سے روزانہ ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔امداد کو ترسے متاثرین کی اکثریت کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے پاکستان میں صحت کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے، صحت کے مراکز سیلاب میں ڈوب گئے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ غیر محفوظ پانی پینے سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے اسی تناظر میں خبردار کیا ہے کہ سیلاب کے بعد پاکستان کو بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے۔وبائی امراض کے پھیلاﺅاور جانی نقصان کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان اور مقامی و بیرونی اداروں کی جانب سے جاری امدادی سرگرمیوں کو اس طرح مربوط کیا جانا چاہیے کہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں اور علاقوں میں صاف پانی، معیاری غذا ، مچھروں اور دیگر حشرات الارض کے خاتمے کے لئے جراثیم کش چھڑکاﺅ اور مطلوبہ ادویات کی کمی نہ ہونے پائے جبکہ علاج معالجے کے لیے طبی عملے کی حسب ضرورت دستیابی کا اہتمام بھی ناگزیر ہے۔
سندھ،بلوچستان اور پنجاب کے درمیان ٹرینوں کی آمدورفت ابھی تک معطل ہے ۔ ہمیشہ کی طرح مصیبت میں مبتلا دیکھ کر عوام کو مہنگائی کا ایک نیا طوفان اٹھا دیا گیا۔سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ سیلاب سے راستے بند ہیں۔ ضرورت اور فراہمی میں عدم توازن کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اس صورتحال سے روزمرہ ضرورت کی اشیاءکا آن لائن کاروبار کرنے والے بھی یقیناً فائدہ اٹھا رہے ہوں گے۔ تاجروں کا موقف ہے کہ اگر ڈیمانڈ اور سپلائی میں عدم توازن دور کرنے کے لیے حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو مزید مہنگائی ہوگی۔ ابھی ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔اس کے بعد ہمیں پتا لگے گا کہ ملک سے اناج ختم ہو گیا ہے ، ایک روپے کی چیز دو سو روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے۔اس کے بعد ہمیں بتایا جائے گا کہ زمینیں بنجر ہو چکی ہیں۔ سیلابی پانی کی تباہ کاریوں نے زمین برباد کردی ہے۔ گھروں، عمارتوں کا ملبہ زمینوں میں مل چکا ہے۔کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، پھر ایک بری خبر یہ ملے گی کہ جانور خصوصاً گائے بھینس، بکرے، مرغیاں وغیرہ پہلے ایک مخصوص بیماری سے مر گئے، جو بچے تھے وہ سیلاب میں بہہ گئے۔ گوشت ، دودھ ، مکھن، پنیر وغیرہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ متوقع ہے ، سیلابی علاقوں میں بجلی کا نظام ، کھمبے سب تباہ ہو چکے ہیں۔ حالات زیادہ سنگین ہوئے تو ہمیں پتا لگے گا کہ بہت سے لوگ اپنے گھر اور رقبے کی حدود کی نشاندہی نہیں کر پا رہے، پٹوار خانے کا مینول ریکارڈ کہیں نہیں ہے۔ مقامی دفاتر کا تمام ریکارڈ ، ہر قسم کا ترقیاتی کام، بقایا پیمنٹس کا ریکارڈ، لاکھوں کے چیک بھی سیلاب برد ہو چکے ہوں گے۔ملک میں وسیع پیمانے پر جانی و مالی تباہی ہوئی ہے، لوگوں کے چہروں پر موت رقصاں ہے اوپر سے امداد کہاں جا رہی ہے، کسی کو علم نہیں۔ امدادی رضاکاروں ، میڈیا نمایندوں کے مطابق ایک خطرناک صورت حال جنم لے رہی ہے جو لوٹ مار، گوداموں پر قبضے، وڈیروں کے محلات و اوطاقوں پر حملوں اور اسپتالوں سے دوائیاں ہی لوٹنے کے ہی نہیں بلکہ ان کے بیڈز وغیرہ بھی اٹھا کر لے جانے کے واقعات ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ایسی صورت حال جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے، وہیں سیاسی کارکنوں، این جی اوز میں کام کرنے والوں اور پوری سول سوسائٹی کے لیے بھی پریشان کن ہو گا جب سیلاب زدگان اٹھ کر اناج کے گوداموں اور بڑے بڑے ذخیروں کو لوٹیں گے، ڈیروں پر حملے کر کے تجوریاں توڑیں گے، راستوں سے فراٹے بھرتی کاریں و گاڑیاں جب چھینی جائیں گی۔ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ سے کھانے و پینے کی تمام اشیا اس طرح چٹ کردی جائیں گی جیسے چیونٹیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ اس ممکنہ صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک مربوط اور منظم میکنزم بنائیں تاکہ سیلاب زدگان کو امدادی اشیا پہنچ سکیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے پوری قوم کو یکسو ہونا پڑے گا۔ پوری دنیا سے پاکستانی سیلاب متاثرین کے لیے امداد آرہی ہے اگرچہ پہلے کورونا کی وبا اور اب سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کیلئے غیرملکی امداد پر پوری طرح بھروسہ نہیں کیا جاسکتا مگر اس کے ساتھ ساتھ اندرون ملک مخیر شخصیات اور ضلعی اداروں کے متحرک ہونے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ بے گھر خاندانوں کے مصائب کا کسی حد تک ازالہ ہوسکے گا۔ پاکستان کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے۔ اس بحران کا مقابلہ اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم مل کر اس آفت سے نمٹے مگر افسوس کا مقام ہے کہ سیاست کاروں کا ایک گروہ اس پر بھی اپنی سیاست چمکانے میں لگا ہوا ہے اور دن رات عوام میں مایوسی پھیلا رہا ہے۔حالانکہ یہ وقت پانی میں ڈوبے ہوئے کروڑوں بے گھر لوگوں کے حوصلے بڑھانے اور ان کی ہر طرح سے امداد کرنے کا ہے۔ سیاست کے لیے بڑا وقت پڑا ہے۔ اس وقت سب سے پہلے ملک کے ایک تہائی علاقے میں روٹی روزی اور سروں پر چھت سے محروم انسانوں کو بچانے کی فکر کرنی چاہئے۔