انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ جہاں پیدا ہوتا ہے، اس زمین سے اسے فطری طور پر بہت زیادہ لگاؤ اور انسیت ہوتی ہے۔ اس محبت کو ماں جیسی محبت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن کو مادر وطن بھی قرار دیا گیاہے۔ مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنی جنم بھومی اور اپنے علاقے سے فطری محبت ہوتی ہے۔یہ محبت اس کے خون میں رچی بسی ہوتی ہے۔اور اسی محبت کی وجہ سے اگر ضرورت پڑے تو انسان اپنے وطن کے دفاع میں سر دھڑ کی بازی بھی لگا دیتا ہے۔ وطن سے محبت قانون فطرت ہے۔ اس فطرت کے تحت وطن عزیز پاکستان میں لاکھوں ایسے افغانی ہیں جن کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہوئے۔ یہاں پلے، بڑھے اس ملک کا نمک کھایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ افغانی جو پاکستان میں پیدا ہوئے،جن کا بچپن لڑکپن حتی کہ یہ جوان بھی اسی سرزمین پر ہوئے، ان کے دل پاکستان کے لئے دھڑکنے چاہئے تھے۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے ان افغانیوں نے وطن سے محبت کے معاملے میں اس قانون فطرت کو ہی جھوٹ کر ڈالا۔ یہ افغانی اب چالیس سال سے زیادہ عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان افغانیوں کی نسل در نسل پاکستان میں میں پیدا ہوئی ہے۔ لیکن پاکستان سے ان کی محبت تو درکنار، یہ پاکستان دشمنی اپنے دلوں میں پال رہے ہیں اور اس کا پرچار بھی کرتے ہیں۔پاکستان دشمنی کا کا ان افغانیوں کو جہاں موقع ملتا ہے وہ اس کا بھرپوراظہار کرتے ہیں۔ افغانیوں کی اس پاکستان دشمنی کے اظہار کی چند مثالیں پیش ہیں۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو 36 روز تک افغانستان پر پر بارود عید کر آنے کے بعد جو پہلا فوجی جی فضا سے سر زمین افغانستان پر اتارا گیا وہ برطانوی فوجی تھا جس کے ہمراہ میڈیا یا انٹر نیشنل میڈیا کے لوگ تھے اور اس جتھے نے کابل کو گویا فتح کیا۔ کابل طالبان کے ہاتھ سے نکلا تو وہاں سب سے پہلے جو نعرہ لگا وہ مرگ بر پاکستان ( پاکستان مردہ باد)تھا۔ یہ زہر آلود نعرہ کسی برطانوی یا امریکی نے نہیں بلکہ ان افغانیوں نے لگایا جو سرزمین پاکستان پر پناہ لئے ہوئے تھے۔ پاکستان میں پیدا، پلنے اور بڑھنے والے افغانیوں کے اس قسم کے روئیے آئے دن بار بار دیکھے جا چکے ہیں۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ ایشیاء کپ میں اس وقت دیکھا گیا جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سپر فور مرحلے میں میچ کھیلا جارہا تھا۔ یہ میچ آخری اوور میں نسیم شاہ کے مسلسل دو چھکوں کے بعد پاکستان نے جیت لیا۔اس شکست کے بعد افغانیوں نے پاکستان دشمنی میں اپنے بغض کا جس طرح اظہار کیا وہ ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ اپنے کسی بدترین دشمن کے خلاف جذبات کا اظہار کررہے ہوں۔ افغانیوں کے یہ روئیے کسی بھی طور قابل قبول نہیں تھے۔ پاکستان دشمنی پر پر مبنی اس رویے کو اگرچہ پورے پاکستان میں محسوس کیا گیا تاہم خیبر پختونخوا میں اس روئیے کی چبھن زیادہ محسوس کی گئی۔قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کہ چیئرمین نور عالم خان کا تعلق بھی خیبرپختونخوا سے ہے۔ انہوں نے افغانیوں کے ساتھ مقامی لوگوں کا ہمدردانہ برتاؤ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے، بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نور عالم خان نے خود ان افغانیوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا ہو۔ انہیں پناہ دے کر خیبر پختونخوا کے لوگوں کے ساتھ بہت امتیازی سلوک بھی ہوا۔ مہاجرین کے بارے میں جو بین الااقوامی قانون ہے اس کے تحت ان لوگوں کو کیمپوں یا پھر سرحدی علاقوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ لیکن حکومت پاکستان نے ان بن بلائے مہمانوں کو اتنی کھلی چھوٹ دی کہ کیمپ تو درکنار یہ شہری علاقوں میں رہے۔ اور اس پر مستزاد دیے کہ انہوں نے یہاں اپنے کاروبار جمائے۔ اس کاروبار پر جب ان سے ٹیکس طلب کیا جاتا تو وہ مہاجر کا سٹیٹس لے لیتے ہیں مگر جب منافع کی باری آتی ہے تو وہ مقامی تاجر کے ہم پلہ بن کر کما رہے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے مقامی تاجر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان مہاجرین نے پاکستان کے ہر شہر میں جائیدادیں خرید لی ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پر مہاجر اسٹیٹس لاگو ہوتا ہے کہ نہیں؟ ان لوگوں نے بد عنوان افسران کو رشوت دے کر اپنے لئے شناخت تو پاکستان کی لے لی ہے تاکہ اس سے پیسہ کما سکیں لیکن اندر سے ان کے اندر پاکستان کے خلاف بغض بھرا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ان مار آستین کو پاکستان بدر کیا جائے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے یہی مطالبہ حکومت سے کیا ہے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کر نے اور پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کرنے والے افغانیوں کو فوری طور پر ملک بدر کرنے کا حکم دیا ہے۔کمیٹی نے شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں ہلڑ بازی کرنے والے 390۔ افغان شہریوں کے پاس پاکستانی پاسپورٹ موجود ہونے کے انکشاف پر ایف آئی اے اور وزارت داخلہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی کو ایف آئی اے سے یہ انکوائری رپورٹ صرف حاصل نہیں کرنی بلکہ اس پر سزا اور جزا بھی لاگو کرنی ہوگی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں چیئرمین نور عالم خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں سیکرٹری داخلہ ،سیکرٹری قانون و انصاف ، چیئر مین سی ڈی اے ، چیرمین نادرہ آڈٹ اور نیب حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ افغان مہاجرین کب تک ہمارے سروں پر بیٹھے رہیں گے، وہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں اور پاکستان کے خلاف نعرے بھی لگاتے ہیں۔ چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کیوں نہیں کیا گیا؟ انہیں کیمپوں تک محدود کیا جائے۔ غیر رجسٹرڈ لوگوں کو واپس بھیجا جاۓ۔ وہ یہاں کا روبار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں جو بھی جرائم ہوتے ہیں ان میں افغانی ملوث ہوتے ہیں۔ اس موقع پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ کہ جو افغانی پاکستان میں پیدا ہوۓ ہیں کہ وہ مہاجر نہیں ہیں تاہم ان کے سٹیٹس کے بارے میں وزارت داخلہ بتاسکتی ہے۔ چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ وہ وزارت داخلہ کو ایک مہینے کا ٹائم دیتے ہیں کہ اس حوالے سے اقدامات کئے جائیں۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ افغان مہاجرین کو بین القوامی قوانین کی وجہ سے واپس نہیں بھجوایا جا سکتا۔ پاکستان میں 14۔لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں ہم ان پر دباؤ نہیں ڈال سکتے ہیں۔ یہ موقف اپنی جگہ لیکن اگر نیب کے بارے میں راتوں رات قانون سازی ہوسکتی ہے تو پھر ان دشمنان پاکستان کو ملک بدر کرنے کے لئے بھی قانون بنائے جائیں تاکہ ان کو پاکستان بدر کیا جائے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے میچ ہارنے پر بلبلا اٹھتے ہیں لیکن اگر ہندوستان سے میچ ہار کر بھی خوش ہوتے ہیں ۔ہندوستان سے میچ پڑ جائے تو ان کے جذبات میں وہ کاٹ نہیں دکھائی دیتی جو پاکستان کے خلاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کو یہ بھی احساس نہیں کہ جس پاکستان کے خلاف وہ زہر اگلتے ہیں اسی پاکستان سے ان کا بیٹنگ اور بولنگ کوچ انہیں بائولنگ اور بیٹنگ سکھا رہا ہے۔ تو یہ ایسا ہی ہے کہ میری بلی مجھے ہی میاؤں میاؤں۔ افغانیوں کو اپنی اوقات جاننی چاہیے اگر نہیں جاننا چاہتے تو پھر یہی سوچ لیں کہ یہ پاکستانی ان کے محسن ہیں۔ انہوں نے ہی انہیں پناہ دی اور اسی پناہ کے توسط سے انہیں کرکٹ بھی سکھائی۔ جس کے میدان میں اتر کر وہ پاکستان کو آنکھیں دکھا کر اپنے اندر کا بغض ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اسے کھیل کے جذبے کے تحت ہی قبول کرنا چاہیے۔