کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد
علی شاہ اپنے شیڈیول کے مطابق گیارہ اضلاع کے دورے کے بعد آج علی الصبح بنا کسی وقفے پورادن صوبے کے دیگر اضلاع گھوٹکی، میرپورماتھیلو، اباوڑو، کندھ کوٹ۔کشمور، جیکب آباد اور شکارپور دورہ کیا ۔
گھوٹکی: وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سب سے پہلے ڈھرکی پہنچے جہاں سیلابی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد متاثرین سے ملے اوراور انکے مسائل سنے۔اس موقع پر انکے ہمراہ صوبائی وزراء، جام خان شورو، مکیش کمار چاولہ، ناصر حسین شاہ اور سینیٹر جام مہتاب بھی تھے۔ وزیراعلیٰ کے پہنچنے پر ضلع گھوٹکی کے منتخب نمائندوں نے انکا استقبال کیا۔ ڈی سی گھوٹکی نے اپنے بریفنگ میں وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ خالدآباد تعلقہ میرپورماتھیلو کی یوسیز صاحب خان لنڈ، یارو لنڈ میں بارشوں سے ڈوبی ہوئی ہیں اور قادرپور روڈ ابھی تک زیر آب ہے۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے موقع پر ہی ڈی سی گھوٹکی کو فوراً نکاسی آب کا عمل شروع کرنے کی ہدایت کی اور رکن اسمبلی جام خان شورو کو ہدایت کی کہ ان علاقوں کی نکاسی کا بندوبست کرے ۔ ڈی ایچ او نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ تین دن تک خالدآباد کے علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگائی تھی جس میں 25000 مریضوں کو دیکھا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے خالد آباد انتظامیہ سمیت سیلاب متاثرین کو کہا کہ یہاں پانی کی نکاسی کا مسئلہ ہے وہ میں دیکھنے آیا ہوں اور پانی کی نکاسی کے احکامات میں نے دے دئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم متاثرین کے مسائل حل کرینگے اس لئے خود دورہ پر نکل پڑا ہوں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گھوٹکی کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے پہنچا ہوں، یو سی جروار اور یوسی یارو لنڈ کا دورہ کرلیا ہے جہاں دو اہم مسائل جس میں پانی کی نکاسی اور صحت کے مسائل ہیں جس کیلئے ڈی ایچ او کو صحت سے متعلق بہترین سہولیات دینے کی ہدایت کردی ہے۔ وزیراعلیٰ نے میڈیا کو بتایا کہ ڈی ایچ او نے بتایا ہے یہاں کیمپ لگائے گئے جہاں 25000 مریضوں کو دیکھا ہے اور ادویات بھی موجود ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ یقیناً اس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور ہم کریں گے۔
میرپور ماتھیلو کیمپ : وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ گھوٹکی کے بعد بی ایچ یو گڑھی چاکر پہنچے جہاں قائم کیمپ میں میڈیسن اسٹاک کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ روزانہ 150 سے زائد او پی ڈی ہوتی ہے، زیادہ تر خواتین اور بچے آتے ہیں، بی ایچ یو کی روزانہ او پی ڈی صبح سے 2 بجے تک چلتی ہے، سیلابی صورتحال کے باعث شام 5 بجے تک او پی ڈی کرتے ہیں، ایمرجنسی 24 گھنٹے بیسک ہیلتھ یونٹ میں ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے دو مریض خواتین سے بی ایچ یو میں سہولیات سے متعلق پوچھ گچھ کی تو انھوںجواب مثبت پایا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کیمپ میں مریضوں کو ملنے والی ادویات کو بھی کود چیک کا۔ وزیراعلیٰ سندھ کو ڈپٹی کمشنر گھوٹکی عثمان عبداللہ نے بریفنگ میں بتایا کہ ضلع گھوٹکی میں موسمی تبدیلی کے باعث اس مون سون میں 517.4 ملی میٹر بارشیں ہوئی ہیں ، تعلقہ خان گڑھ میں 541 ایم ایم، گھوٹکی میں 432 ایم ایم، میرپور ماتھیلو میں 632 ایم ایم، ڈھرکی میں 434 ایم ایم اور اوباوڑو میں 548 ایم ایم بارشیں ریکارڈ ہوئیں۔ ڈی سی نے بتایا کہ شدید بارشوں کے باعث 19 اموات ہوئی اور 47 زخمی ہوئے اور 86590 لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ ضلع بھر میں 56 امدادی کیمپ قائم کئے ہیں جہاں 9444 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ ڈی سی نے بتایا کہ ضلع گھوٹکی میں اندازاً 15418 گھر تباہ ہوئے ہیں ،
18184 مویشی مرگئے چکے ہیں اور 346863 ایکڑوں پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جبکہ ضلع گھوٹکی کی تمام 66 یوسیز سیلاب سے متاثر ہوئی ہیں ۔ڈی سی نے بتایا کہ انفرااسٹیکچر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔
اوباوڑوکیمپ : وزیراعلیٰ سندھ میرپورماتھیلو کیمپ کے بعد رونتی میں قائم امدادی کیمپ کادورہ کرنے پہنچے جہاں معلوم پڑا کہ سیلاب متاثرین واپس اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے ہیں ۔ وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ قریب گاؤں سے مریض کیمپ میں آ رہے ہیں اورمریضوں کو دیکھنے کیلئے ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف موجود ہیں۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ جروار یونین کونسل کے دیہاتوں میں گیسٹرو کا مسئلہ پیدا ہوا ہے جس کیلئے ڈی ایچ او نے میڈیکل کیمپ قائم کردی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زرعی زمینوں سے پانی کی نکاسی ہوجائے کیوں کہ اس سے ربیع کے فصل کیلئے زمین کاشت کے قابل ہوجائےگی۔وزیراعلیٰ نے بتایا کہ ہر ضلع میں گیا ہوں خود مسائل دیکھے ہیں اور حل کرنے کیلئے اقدامات دیئے ہیں اورانشاء اللہ لوگوں کی تکلیف دور کرینگے۔ وزیراعلیٰ سندھ وہاں سے ہوتے ہوئے گورنمنٹ پرائمری اسکول رحیم شاہ کا دورہ کرنے پہنچے جہاں وزیراعلیٰ سندھ نے بچوں سے سبق (lesson) سنانے کو کہا تو بچوں نے پڑھ بتایا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے تیسری جماعت کے بچوں اور بچیوں سے ملے اور انھیں بہترین مستقبل کیلئے تلقین کی۔ اس موقع پر انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ اسکول میں 300 طالبعلم زیر تعلیم ہیں۔ جس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ مجھے ان بچوں کو پڑھتے ہوئے بہت سکون محسوس ہوتا ہے، آپ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کو بہترین تعلیم سے آراستہ کریں۔ اچھے اساتذہ ہمارے اچھے مستقبل کے ضامن ہیں۔
کندھ کوٹ-کشمور: وزیراعلیٰ سندھ سید گھوٹکی کا دورہ مکمل کر کے کندھ کوٹ – کشمور پہنچے جہاں رؤف کھوسو، میر عابد خان سندرانی اور گل محمد جکھرانی نے انکا استقبال کیا جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ صوبائی وزراء، ناصر شاہ، جام خان شورو اور کمیش چاولہ تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ڈی سی کندھ کوٹ – کشمور منور مٹھانی نے بریفنگ میں بتایا کہ کندھ کوٹ – کشمور ضلع میں 3 تعلقہ، ایک میونسپل کمیٹی، 6 ٹاؤن کمیٹیز اور 41 یوسیز ہیں، اس ضلع میں 148 دیھ ہیں جس میں 110 پکے اور 38 کچے میں ہیں، یکم جولائی سے 26 اگست تک 1353 ایم ایم بارشیں ہوئیں ، شدید بارشوں کے باعث ضلع کا 159731 ایکڑ علاقہ متاثر ہوا ہے، بارشوں سے 119698 گھر گرگئے ہیں، بارشوں میں 20084 مویشی مر گئے ہیں ، بارشوں میں 21 لوگ جاں بحق اور 709 زخمی ہوئے ہیں، 27 امدادی کیمپ قائم کی گئی ہیں جہاں 6961 متاثرین کو رکھا گیا ہے۔ ڈی سی نے بتایا کہ کیمپوں میں پکا کھانا، پیکٹ دودھ، راشن بیگس، ترپالیں، مچھردانیاں، جیری کین، بیڈ شیٹس اور تکیہ مہیا کئےگئے ہیں، نشیبی علاقوں سے پانی کی نکاسی کردی ہے جس کے بعد متاثرین اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔
ٹھل : وزیراعلیٰ سندھ وہاں سے ہوتے ہوئے ٹھل پہنچے جہاں گوٹھ سجن خان یوسی ٹوج کے بارش متاثرین نے وزیراعلیٰ سے خیمے اور راشن کے لیے درخواست کی۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے ڈی سی جیکب آباد کو متاثرین کیلئے خیمے کا بندوبست کرنے کی ہدایت کی ۔انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ متاثرین کے دیہات مکمل پانی میں ڈوب چکے ہیں اور وہ کندھ کوٹ –ٹھل شاہراہ پر خیموں میں مقیم ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ وہاں سے ہوکر مغل خان لاشاری امدادی کیمپ کا معائنہ کرنے پہنچے جہاں گنوار خان لاشاری ویلیج کے ڈوبنے کے باعث امدادی کیمپ قائم کی گئی ہے۔ انتظامیہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ کیمپ میں 130 لوگ رہائش پذیر ہیں اور انھیں میڈیکل کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے سعید خان موری میں گنوار لاشاری ویلیج سے پانی کی نکاسی کیلئے انتظامیہ کو ہدایت کرتے ہوئے صوبائی وزیر آبپاشی کو نکاسی کا بندوبست کرنے کے بھی احکامات جاری کئے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ پانی کی نکاسی ہوگی تو لوگ کیمپس سے اپنے گھروں کو روانہ ہوجائیں گے، آپ کی زرعی زمینوں سے بھی پانی کی نکاسی کریں گے،میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ گندم اُگائیں۔جیکب آباد : وزیراعلیٰ سندھ ٹھل کے بعد اقبال ٹاؤن بائی پاس ریلیف کیمپ کا دورہ کرنے پہنچے جہاں انھیں بتایا گیا کہ اس ماڈل کیمپ سٹی میں 67 خیموں میں 445 لوگ آباد ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کیمپ میں لگے مختلف خیموں میں جاکر متاثرین سے ملاقات کی اور انکے مسائل سنے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جانتا ہوں کہ تمام ترسہولیات کی فراہمی کے باوجود اپنی جھونپڑی کا سکون نہیں دے سکتے، میں تقریباً ہر متاثرہ شہر ، گائوں اور دیہات کا دورہ کرچکا ہوں، مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہم خیمے کی ضروریات پوری نہ کرسکے۔ وزیراعلیٰ نے سیلاب متاثرین کو بتایا کہ میں خیموں کے حوالے سے بھرپور انتظامات کرنے کی کوشش کررہاہوں۔ اس دوران وزیراعلیٰ سندھ کو ایک معمرخاتون نے مطلوبہ دواؤں کیلئے درخواست کی تو وزیراعلیٰ نے ڈی ایچ او کو خاتون کا مکمل چیک اپ اور مطلوبہ ادویات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔وزیراعلیٰ سندھ نے کیمپ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لیے بڑی آزمائش کا وقت ہے؛ ان کیمپوں میں متاثرین آباد ہیں نہ کہ کسی کے من پسند لوگوں کو آباد کیاگیا ہے؛ یہاں کوئی بھی من پسند نہیں ہے بلکہ سب کو برابری کی بنیاد پر امداد فراہم کی جارہی ہے؛ ہم بہتر سے بہتر امداد فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں؛
میں یہ نہیں کہتا کہ 100 فیصد سب کو مکمل امداد مل رہی ہے؛ پورے ملک میں 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثرہوئے ہیں ؛ جن میں سے تقریباً 1.5 کروڑ کا تعلق سندھ سے ہیں؛ اشیاء کی فراہمی میں وقت درکار ہے لیکن ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ جلد سے جلد انہیں ضروریات زندگی فراہم کریں؛ میں پورے صوبے کا دورہ کرچکا ہوں اور امدادی کاموں کا جائزہ لیتا رہاہوں؛ میں نکاسیٔ آب کے عمل کا مسلسل جائزہ لے رہا ہوں اور علاقوں کی فوری بحالی کے حوالے سےاقدامات کررہاہوں؛ میں خود بھی ان مقامات کا جائزہ لے رہا ہوں جہاں سے پانی کا اخراج آسانی سے ہو؛ ٹھل سے پانی کی نکاسی صرف پمپ کے ذریعے واہ سے ممکن ہے لیکن آگے بھی پانی ہی پانی ہے، کٹ لگانے کے حوالے سے فیصلے محکمہ آبپاشی کرتی ہے؛ جتنے بھی بڑے /اہم کٹ لگائے گئے ہیں وہ محکمہ آبپاشی کی مشاورت سے لگائے گئے ہیں؛ میں ایک گائوں کو بچانے کی خاطر دوسرے گائوں کو زیر آب نہیں لاسکتا؛ 2010 کے سیلاب اور موجود صورتحال میں بڑا فرق ہے؛ ہم پوری کوشش کریں گے کہ جن کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اُن کی زمینوں کو فوری بحال کریں اور فصل کی کاشت میں مدد دیں، پورے سندھ میں ڈیڑھ کروڑ افراد بے گھر ہوئے ہیں؛ ہمیں کم از کم 15 لاکھ خیموں کی ضرورت ہے؛ اس وقت ہم نے پاکستان بھر سے خیموں کے آرڈر دے رکھے ہیں مگر اب تک 4 لاکھ سے زیادہ خیموں کا بندوبست نہیں ہوپایا؛ ہم نے بین الاقوامی برادری سے بھی خیموں کے حوالے سے اپیل کی ہے، مگر 7 سے 8 ہزار خیموں سے زیادہ نہیں آئے؛ رائٹ بینک اور لیفٹ بینک بُری طرح متاثر ہیں؛ صرف نوشہروں میں 18 سو ملی میٹر بارش پڑی ہے؛ یہاں 4 سو ملی میٹر بارش ہوئی ہے مگر دیگر علاقوں سے پانی کی آمد کی وجہ سے یہاں کی صورتحال خراب ہے؛ میں تسلیم کرتاہوں کہ ڈیمانڈ مکمل طورپر پوری نہیں ہوئیں ہیں مگر ہم نے اشیاء کی فراہمی کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑی؛ یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کو 10 لاکھ راشن بیگ کے آرڈر دے چکے ہیں؛ روزانہ کی بنیاد پر 15 سے 20 ہزار میسر آرہی ہیں جو کہ ضروریات کو پورا کرنے میں ناکافی ہیں؛ اور انہیں پورے سندھ میں تقسیم کیا جارہاہے؛ ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ امدادی اشیاء کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے میڈیا کو بتایا کہ جب تک یہ پانی نہیں نکلے گا لوگوں کے مسائل مکمل طورپر حل نہیں ہوں گے ،پانی کی نکاسی کا سامنا پورے صوبے کو ہے: جیکب آباد سے کوئی دریا نہیں بہتا یہاں کا پانی ضرور دوسرے ضلع میں داخل ہوگا جو دیگر لوگوں کو متاثر کرے گا ، رائٹ بینک کا سارا پانی منچھر جھیل میں جاکر دریا میں شامل ہوجائے گا، اس وقت وہاں بھی تقریباً 14 فٹ پانی ہے؛ بااثر لوگوں کے حوالے سے جو پروپیگنڈا کیا جارہاہے وہ بے بنیاد ہے؛ یہ آزمائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہر تفریق سے بالاتر ہے؛ میرا پورا حلقہ زیر آب ہے؛ بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے ہم بلوچستان حکومت سے بات کریں گے تاکہ کسی کا نقصان نہ ہو، آدمی اُس وقت پریشانی میں آتا ہے جب وہ خودیا پھر اس کی فیملی متاثر ہوتی ہے؛ مگر حکومت کو ہرایک کا احساس ہے؛ میرا یہاں آنے کا مقصد پانی کی نکاسی کو جلد سے جلد ممکن بنانا ہے؛ شدید بارشوں سے چاول کی فصل بُری طرح تباہ ہوگئی ہے؛ ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ یہاں کے کسان گندم کی کاشت کرسکیں :،11سو ملی میٹر برسات صرف صوبۂ سندھ میں ہوئی ہے؛ پٹ عیدن کے ایک شہر میں 18 سو ملی میٹر بارش ہوئی ہے ؛ سندھ کی کُل اراضی 1 لاکھ 41 ہزار اسکوائر کلو میٹر ہے جہاں 140 ملین فٹ پانی پڑا ہے ؛ تقریباً 20 تربیلا ڈیم کا پانی اس دھرتی پر پڑا ہے؛ محکمہ آبپاشی نے ایف پی بند کو 2010 کے بعد 5 فٹ اوپر کیا؛ پانی کو روکنے کے لیے ہم نے منچھر کے بندکو 4 فٹ اونچا کیا تھا؛ ہمارے یہاں معمول کی بارش اوسطاً 100 سے 120 ملی میٹر ہوتی ہے؛ اس بار 1100 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جوکہ 10 گنا زیادہ ہے؛ گڈو اور سکھر بیراج پر 4 لاکھ کیوسک اوسطاً پانی آتاہے؛ ہمیں متاثرین کی بحالی کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہے؛ صرف لیفٹ بینک کی اسکیم جو تاخیر کا شکار ہے اُس کے لیے 130 ارب روپے درکار ہیں؛ ہم نے سپریم کورٹ سے بحریہ کے پیسوں کا تقاضا کیاتھا مگر سپریم کورٹ نے نہیں دیئے؛ پیپلزپارٹی میں کوئی اختلاف نہیں ،میں کسی سے ملاقات کرنے نہیں آیا بلکہ متاثرین کی مدد کرنے آیا ہوں؛ میں کیمپوں کا دورہ کررہا ہوں اور امدادی کاموں کا جائزہ لے رہاہوں ، میری پوری کوشش ہے کہ لوگوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔
وزیراعلیٰ سندھ میڈیا سے بات کرنے کے بعد جیکب آباد کے نوارہ روڈ پر قائم کیمپ کا معائنہ کرنے پہنچے ۔ وزیراعلیٰ سندھ کو انتظامیہ نے بتایا کہ جیکب آباد کی آٹھ ایسی یونین کونسلز ہیں جو نشیبی علائقوں پر محیط ہیں، بلوچستان کی حیردین نالے کے ٹوٹنے سے جیکب آباد کی آٹھ یونین کونسلز زیر آب ہیں، لوگوں کی بڑی تعداد گھر چھوڑ کر روڈ پر آگئی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے سیلاب متاثرین نے کہا کہ ہیئرڈن نالے کے شگاف کو بند کرکے پانی کی نکاسی کی جائے جس پر وزیراعلیٰ سندھ متاثرین کو یقین دلایا کہ میں اس کا جائزہ لینے خود یہاں آیا ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ میں بلوچستان حکومت سے بات کروں گا مسئلے کا حل نکالتے ہیں، ہم کوشش کررہے ہیں کہ پانی کی نکاسی ہو تو زندگی بحال ہو۔
شکارپور: وزیراعلیٰ سندھ جیکب آباد کا دورہ مکمل کرنے کے بعد شکارپور کے بے نظیر ٹاؤن میں قائم خیمہ بستی کا دورہ کرنے پہنچے ۔ اس موقع پر انکے ہمراہ گورنر آغا سراج درانی ، وزیر توانائی امتیاز شیخ، عابد بھیو بھی تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو انتظامیہ نے بتایا کہ 350 متاثرین خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہیں اور تمام تر سہولیات دی جارہی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے خیموں میں جاکر متاثرین سے ملاقات کرکے مسائل سنے اور متاثرین کو جلد اپنے گھروں کو بھیجنے کی یقین دہانی کرائی۔ انھوں نے کہا کہ پانی کی نکاسی پر کام جلد شروع کرنے جارہے ہیں، پانی کی نکاسی ہوتے ہی متاثرین کو واپس گھروں کو بھیج دیں گے۔ شکار پور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں پہلے بھی شکار پور کا دورہ کرچکا ہوں؛ اس کیمپ میں آج میں پہلی بار آیا ہوں؛ ہماری سب سے اہم اور اولین ترجیحی تھی کہ لوگوں کو ریسکیو کیاجائے؛ اب ہم انہیں ہر طرح کی امداد دینے کی پوری کوشش کررہے ہیں؛ ریلیف کے کاموں کو 100 فیصد تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں ؛ یہ ایک بڑی آزمائش تھی؛ ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ لوگوں تک پہنچا جائے اور ان کو دی جانے والی سہولیات کاجائزہ لیا جائے؛ ہر متاثرین تک کوئی نہ کوئی حکومتی نمائندہ ، پیپلزپارٹی کا ورکرز ایم پی اے یا ایم این اے ضرور پہنچا ہے؛ ہمیں کم از کم 15 لاکھ خیمے درکار ہیں؛ اس وقت ہمارے پاس 4 لاکھ موجود ہیں ؛ لوگ مجھ سے شکایات کرتے ہیں ، مجھے بُرا محسوس نہیں ہوتا کیونکہ وہ تکلیف میں ہیں؛ مجھے میڈیا پر کوئی اعتراض نہیں مگر ایسے وقت میں الیکشن کے حوالے سے سوال کرنا غیر معقول بات ہے؛ اس وقت ہماری کوشش ہے کہ صحت کے معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے؛ گیسٹرو، جلد، ملیریا و دیگر امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں؛ ہم نے عالمی دنیا سے مدد بھی مانگی ہے؛ ہم وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر متاثرین کی بحالی کے حوالے اقدامات کررہے ہیں؛ وزیراعظم پاکستان صوبہ سندھ میں متعدد دورے کرچکے ہیں؛ ہمارا زیادہ زور پانی کی نکاسی پر ہے اور کسی کا نقصان بھی کرنا نہیں چاہتے؛ پانی کی نکاسی کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پانی ہر جگہ پھیلا ہوا ہے؛ منچھر اس وقت بھرا ہوا ہے، لیکن ہم نے منچھر کوبھی کٹ دیے ہیں؛ جس سے تحصیل ڈوبی مگر پانی دریا میں جارہاہے؛ ہم لوگوں کو گندم کی فصل بونے کے قابل کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں؛ میں نے ان کی مدد کے لیے وفاقی حکومت سے بھی بات کی ہے؛ ہم بیج ،فرٹائیلائز یا کیش یا کائنڈ ، بینکوں سے سستا لون کی صورت میں ان کی مدد کریں گے تاکہ وہ اپنے گندم کی فصل بو سکیں؛ اس وقت بھی پانی اگر کہیں سے کم ہورہا ہے تو دیگر علاقوںمیں اس کی سطح بلند ہورہی ہے؛
ریسکیو کا کام جاری ہے؛ 400 ارب روپے کا لوگوں کی زراعت کو نقصان پہنچا ہے؛ سروے کا کام مکمل ہوچکاہے اور ایک آخری سروے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کررہے ہیں؛ میں تمام ممالک کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس آفت میں ہماری مدد کی؛ تقریباً 7 سے ساڑھے 7 ہزار تک خیمے آئے ہیں ؛ ہمیں کوئی پیسہ نہیں دیاگیا؛ لیکن جو سامان آیا ہے وہ لوگوں میں تقسیم کیاجارہاہے؛ ضرورت ہماری بہت زیادہ ہے؛ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خود آکر یہاں کا دورہ کیا تھا؛ اس تباہی کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں؛ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے؛ جن لوگوں نے یہ ڈیزازسٹر پیدا کیا ہے ان کا فرض ہے کہ آگے آکر ہماری مدد کریں ؛ یہی بات بلاول بھٹو زرداری نے دنیا کے سامنے رکھی ؛ یہی بات اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی کہہ رہےہیں؛ یہ ہم پر کوئی احسان نہیں بلکہ یہ ہمارا حق ہے؛ میری پوری تحصیل ڈوبی ہوئی ہے حالانکہ میں سندھ کا وزیراعلیٰ ہوں؛ 1100 ملی میٹر بارش یعنی 10 سے 11 گنا زیادہ بارش ہوئی ہے؛ 40 لاکھ کیوسک پانی آجائے تو اسے کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوتا ؛ پانی بہت زیادہ ہے مگر ساتھ ساتھ غلط افواہیں بھی گردش کررہی ہیں؛ لوگوں کو امید دلانے کی ضرورت ہے؛ میڈیا کو چاہیے کہ وہ افواہوں سے گریز کرے اور لوگوں کا حوصلہ بڑھائے؛ میں یہاں کام کرنے اور لوگوں کو امید دینے آیا ہوں؛ لوگوں نے گھروں میں واپس جانا شروع کردیا ہے؛ ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کو خیمے اور کم از کم ایک ماہ کا راشن دیاجائے ؛ یہ سارا پانی منچھر جھیل سے دریا میں بہے گا؛ روزانہ کے حساب سے دریا میں 2 لاکھ کیوسک جارہاہے؛ تقریباً 75 فیصد پانی اگلے ڈیڈھ سے 2 مہینوں میں اخراج ہوپائے گا؛ 25 فیصد پانی کو پمپ آؤٹ کرنا پڑے گا؛ اس وقت پمپ آئوٹ نہیں کرسکتے کیونکہ آگے بھی پانی ہے۔