اسلام آباد( نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے سیلاب کو بڑی ماحولیاتی آفت اور انسانی بحران قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان جس آفت کا سامنا کر رہا ہے یہ آفت ہماری پیدا کردہ نہیں ہے،عالمی برادری گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ہونے والے پاکستان کی فوری امداد کرے ،یہ سیاست کا نہیں خدمت کا وقت ہے ، پانی میں ڈوبے ہوئے، بے گھر ہونے والے افراد کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے،ہمیں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، یہ وقت کسی قسم کے انتشار کا وقت نہیں ۔نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈی نیشن سینٹر میں چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز اور نیشنل فلڈ رسپورنس سینٹر کے کوارڈینیٹر میجر جنرل ظفر اقبال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہاکہ رواں سال مون سون سیزن کے دوران غیر معمولی بارشوں کے باعث پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا۔انہوںنے کہاکہ اس سیلاب کے باعث سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں تباہی ہوئی، اس وقت بھی بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں سیلابی پانی سمندر کی مانند کھڑا ہے، پورے پورے اضلاع زیر آب ہیں،
حالیہ سیلاب سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیلاب سے 15 سو سے زیادہ شہری جاں بحق ہوئے ہیں، ہزاروں گھر تباہ ہوئے ہیں، 8 لاکھ کے قریب جانور ہلاک ہوئے ہیں، تیار فصلیں تباہ ہونے کے باعث غذائی تحفظ کے لحاظ سے بھی بہت بڑا نقصان ہوا ہے ، اس صورتحال کے سلسلے میں وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں، مسلح افواج اور تمام متعلقہ ادارے کام کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ تمام ادارے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں لیکن تباہی اس وسیع پیمانے پر ہے کہ کسی ایک ادارے کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ تنہا اس سلسلے میں مکمل کام کرسکے، یہ مصیبت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو لیکن پاکستانی قوم کی صلاحیت سے بڑی نہیں ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ میں آج سیلاب سے محفوظ دو تہائی پاکستان سے اور ہر اس پاکستانی سے جس کا کاروبار معمول کے مطابق چل رہا ہے، جس کی فصلیں محفوظ ہیں، جو اپنے گھروں پر سکون سے سوتا ہے، جو اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہا ہے، جو اچھے ماحول میں زندگی گزار رہا ہے، میں اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے لاکھوں بھائی اوربہنیں سیلاب کے باعث اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اور آج وہ کھلے آسمان تلے یا خیموں کے اندر پناہ لیے بیٹھے ہیں، ان کا سب کچھ ، ان کی جمع پونچی سیلاب کی نذر ہوگئی ہے۔انہوںنے کہاکہ 2 روز قبل میں ایک کیمپ کے دورے پر گیا جہاں 18 سے 19 سال کی ایک خاتون کو دیکھا جس کی گود میں ایک ڈیڑھ سال کا بچہ تھا، بچہ اتنا کمزور تھا جیسے اس کا تعلق افریقہ کے کسی قحط زدہ علاقے سے ہو، اس کے علاوہ اس خاتون کے آئندہ چند روز کے دوران ایک اور بچہ پیدا ہونے والا تھا، میں سوچ رہا تھا کہ گود میں موجود بچے کا کیا مستقبل ہے اور جو بچہ پیدا ہوگا اس کا کیا بنے گا جب کہ ماں بھی نہایت کمزور اور لاغر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک خاتون کی کہانی نہیں، ایسی ہزاروں خواتین ہیں جو امداد کے لیے خطرات سے محفوظ دو تہائی آبادی کی جانب دیکھ رہی ہیں، اس دو تہائی پاکستان کو اس وقت امداد کے لیے سامنے آنا چاہیے، یہ بیٹھنے کا وقت نہیں ہے، ان متاثرین کی بحالی تک ہم پر فرض ہے کہ جس طرح ہوسکے ہم ان کی مدد کریں، میں علما پر زور دوں گا کہ وہ لوگوں کو سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ابھاریں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کی یونی ورسٹیز کے اندر زیر تعلیم 25 لاکھ طلبا کو وائس چانسلرز کے ذریعے کہیں گے کہ ہر طالب علم اپنی جیب سے یا کمیونٹی کی سپورٹ سے امداد کے طور پر ایک نیوٹریشن پیکٹ فراہم کرے، اس سلسلے میں ہم باقاعدہ تفصیلات جاری کریں گے تاکہ کم از 20 لاکھ پیکٹ فوری طور پر ان بچوں اور ان ماں کو فراہم کیے جاسکیں جو اس وقت خوراک کے لیے ترس رہے ہیں، جن کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔