واشنگٹن(نیٹ نیوز )
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ تائیوان پر چین کے ممکنہ حملے کی صورت میں امریکی فوج تائیوان کا دفاع کرے گی، تاہم وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی ہے واشنگٹن کی تائیوان پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی چینل ’سی بی ایس‘ پر اتوار کو نشر ہونے والے پروگرام ’60 منٹس‘ میں ایک انٹرویو میں صدر بائیڈن سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا؟اس پر جو بائیڈن نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ’ایک غیر متوقع حملہ‘ ہوا تو امریکی فوج تائیوان کا دفاع کرے گی۔صدر سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا مطلب ہے کہ یوکرین کے برعکس امریکی فوجی چینی حملے کی صورت میں تائیوان کا دفاع کریں گے تو جو بائیڈن نے جواب دیا:
’جی ہاں۔‘ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا اور وہ ’ایک چین‘ پالیسی پر کاربند رہا ہے، جس میں واشنگٹن سرکاری طور پر بیجنگ کو تسلیم کرتا ہے نہ کہ تائپے کو۔یہ پہلا موقع نہیں تھا جب صدر بائیڈن نے تائیوان پر مبہم امریکی پالیسی کے برعکس کچھ کہا ہو تاہم یہ اب تک کا ان کا سب سے واضح بیان ہے۔امریکہ ایک عرصے سے تائیوان پر ’سٹرٹیجک ابہام‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور یہ واضح نہیں کرتا کہ آیا واشنگٹن تائیوان پر حملے کی صورت میں اس کا دفاع کرے گا یا نہیں۔ رائٹرز کے مطابق صدر کے حالیہ بیان پر وائٹ ہاؤس سے سوال کیا گیا تو ترجمان نے کہا: ’صدر اس سال کے شروع میں ٹوکیو اور اس سے پہلے بھی یہ بات کہہ چکے ہیں۔‘تاہم ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ ’ہماری تائیوان پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔‘تائیوان خود کو خود مختار ریاست قرار دیتا ہے مگر چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس پر قضے کے لیے طاقت کے استعمال کا ارادہ بھی ظاہر کر چکا ہے۔ امریکہ کے تائیوان سے اچھے تعلقات ہیں
چین کے ساتھ پہلے ہی دیگر امور پر کشیدگی میں اضافہ کرنے کا سبب بنے ہیں۔ صدر بائیڈن اس سے پہلے مئی میں دورہ جاپان کے دوران بھی تایئوان کے دفاع کے حوالے سے بیان دے چکے ہیں۔دورہ جاپان میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ تائیوان کے دفاع کی خاطر فوجی طور پر ملوث ہونے کے لیے تیار ہیں تو انہوں نے جواب دیا تھا، ’جی ہاں… یہی وہ وعدہ ہے جو ہم نے کیا ہے۔‘گذشتہ سال اکتوبر میں بھی جب یہ پوچھا گیا کہ کیا امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا؟ تو جو بائیڈن نے کہا، ’ جی ہاں، ہم ایسا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔‘اس وقت بھی وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا تھا کہ جو بائیڈن امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی کا اعلان نہیں کر رہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق واشنگٹن نے 1979 میں تائیوان کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات منقطع کیے اور بیجنگ کو چین کے واحد نمائندے کے طور پر تسلیم کیا تھا اور اس کے ساتھ تجارتی شراکت داری بھی کی۔ لیکن ایک ہی وقت میں، امریکہ نے تائیوان کی حمایت میں فیصلہ کن، اگرچہ کبھی کبھی نازک، کردار کو بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔
کانگریس کی جانب سے منظور کردہ ایک قانون کے تحت امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیجنگ کی بڑی مسلح افواج کے خلاف اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے تائیوان کو فوجی سامان فروخت کرے۔ لیکن اس نے تائیوان پر پالیسی، جسے سرکاری طور پر ’سٹرٹیجک ابہام‘ کہا جاتا ہے، کو برقرار رکھا ہے کہ آیا وہ واقعی عسکری طور پر مداخلت کرے گا یا نہیں۔اس پالیسی کا مقصد چینی حملے سے بچنا اور تائیوان کو باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کرکے بیجنگ کو اشتعال دلانے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔