وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ ملک میں زیادہ نقصان اور کم واجبات کی وصولی والے فیڈرز کے سوا لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی، وزیراعظم نے نئی توانائی پالیسی تیار کرنے اور شہری و دیہی علاقوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں توازن پیدا کرنے کی ہدایت کی ہے، ملک میں بجلی کی پیداوار 22 ہزار 634 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے، زیادہ خسارے والے فیڈرز پر لوڈ مینجمنٹ کی جا رہی ہے، لوڈ شیڈنگ کم کرنے کیلئے اضافی وسائل درکار ہیں، عذاب عمرانی، بدانتظامی اور نااہلی سے توانائی کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے، آئین کے تحت صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند ہیں، وزیراعظم کے اختیارات کے حوالہ سے آئین واضح ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر بجلی انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا کہ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، لوڈ شیڈنگ کم کرنے کیلئے اضافی وسائل درکار ہوں گے، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ سے وزارت توانائی نے اس سلسلہ میں مالی وسائل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے جس کے مثبت جواب کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ 31 مئی 2018ء کو جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی تھی تو اس وقت ملک میں لوڈ شیڈنگ صفر تھی اور طلب سے زیادہ بجلی سپلائی کی جا رہی تھی لیکن 26 اپریل کو جب مجھے اس وزارت کی ذمہ داری ملی تو ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ یومیہ 8 سے 12 گھنٹے تھا اور 7 ہزار 104 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت بند پڑی تھی اس میں سے 5800 میگاواٹ بجلی اس لئے پیدا نہیں ہو رہی تھی کہ سابق حکومت نے بجلی کی پیداوار کیلئے ایندھن کا انتظام نہیں کیا تھا جبکہ 1300 میگاواٹ بجلی پاور پلانٹس کی مرمت اور بحالی کے کام کی وجہ سے سسٹم میں نہیں آ رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عذاب عمرانی، بدانتظامی اور مافیا کی سرپرستی کی وجہ سے توانائی کا شعبہ بھی متاثر ہوا، اب وزیراعظم شہباز شریف ملک میں ایک وسیع البنیاد حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، انہوں نے یکم مئی سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد یکم مئی سے 10 مئی تک لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی، پن بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے، آج بجلی کی پیداوار 22 ہزار 634 میگاواٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں سے لوڈ شیڈنگ کی شکایات موصول ہوئیں، وفاقی کابینہ کو اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں فیڈرز کی کیٹگریز بنائی گئی ہیں، اے، بی اور سی کیٹگریز جہاں پر بجلی کے نقصانات 30 فیصد سے کم ہیں وہاں پر لوڈ شیڈنگ نہیں کی جا رہی، زیادہ نقصان اور کم واجبات کی وصولی والے فیڈرز میں لوڈ مینجمنٹ کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ اگلے کچھ ہفتے میں نئی توانائی پالیسی بنائی جائے تاکہ آئندہ 10 سال میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت اور توانائی کے شعبہ کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سورج کی روشنی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی سستی ہے، پہلے کوئلہ سے بھی سستی بجلی پیدا ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے، سولر پاور، ونڈ پاور اور ہائیڈل پاور جنریشن بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، تھر میں کوئلہ کے اپنے ذخائر کو بھی زیادہ سے زیادہ استعمال میں لایا جائے گا، 2018ء سے پہلے جو بجلی گھر وہاں لگائے گئے تھے ان کی پیداوار بھی آنا شروع ہو جائے گی، سی پیک کو سابق حکومت نے نقصان پہنچایا، 1320 میگاواٹ کا بجلی کی پیداوار کا منصوبہ سابق حکومت کی نالائقی اور بدنیتی کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا، اس کی بھی پیداوار کا آغاز ہو جائے گا، 22634 میگاواٹ میں نیوکلیئر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے، کے تھری اور کے فور پاور پلانٹس کی پیداوار بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں توازن پیدا کیا جائے، یہ ایک چیلنج ہے لیکن ہم اسے پورا کریں گے، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نظام میں بھی بہتری لائی جائے گی، 100 ارب روپے اگر اضافی مل جائیں تو اگلے پانچ سے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کو محدود کر دیا جائے گا، دیہی اور شہری علاقوں میں لوڈ شیڈنگ میں توازن لانے کی پالیسی پر کام شروع کر دیا ہے، وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ توانائی کے شعبہ کو درکار وسائل فراہم کئے جائیں گے، ایل این جی کی فراہمی کیلئے اقدامات کرنے پر وزارت پٹرولیم اور وزارت خزانہ کے ممنون ہیں، مئی کے ابتدائی 10 دنوں میں 10 سے 8 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کرکے ہم نے ثابت کیا ہے کہ موجودہ وسیع البنیاد حکومت محنت اور عوام کی خدمت کے جذبے سے کام کر رہی ہے، پاکستان کو روشن کرنا سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا مشن تھا، ہم اس مشن کو پورا کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں، آئندہ موسم گرما میں لوڈ شیڈنگ میں کمی رہے گی، اگلے 10 سال کیلئے ہم پالیسی بنانے جا رہے ہیں تاکہ مستقبل کی توانائی کی ضروریات کی پیش بندی کی جا سکے۔ ایک سوال کے جواب میں خرم دستگیر خان نے کہا کہ سابق حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بجلی کے متعدد کارخانے بند ہوئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند ہیں، صدر نے 3 اپریل کو پنجاب کے سابق گورنر چوہدری سرور کو ہٹانے کی ایڈوائس قبول کر لی تھی، اگر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل نہیں کرتے تو آرٹیکل 6 میں آئین سے روگردانی کا ذکر موجود ہے، وفاقی کابینہ نے واضح رائے دی ہے کہ ملک آئین و قانون کے تحت ہی چلے گا، آئین سے روگردانی بالکل واضح ہو گئی ہے اور صدر کے پاس وزیراعظم کی ایڈوائس پر عملدرآمد نہ کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے، آئین اس حوالہ سے بالکل واضح ہے، ہم نے عمران خان کی فسطائیت کے خلاف جو جدوجہد کی ہے وہ آئین کی عملداری کیلئے تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ کا جائزہ لینے کیلئے کمیشن بنایا جا رہا ہے، گورنر کی تعیناتی کے حوالہ سے وزیراعظم کا اختیار بالکل واضح ہے، یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اسے خوش اسلوبی سے حل کیا جائے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ توانائی کے شعبہ کے واجبات 30 جون تک ادا کر دیئے جائیں، یہ ایک مالیاتی چیلنج ہے، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بھی واجبات کی وصولی بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے، بجلی کے شعبہ میں توازن اور تسلسل لے کر آئیں