ماضی کے مشہور کرکٹ آل راؤنڈر اور بعد ازاں پاکستان کے وزیرِاعظم بننے والے عمران احمد خان نیازی کو اس منصب سے ہٹایا جانا کسی یونانی ٹریجڈی تھیٹر سے کم نہیں ہے۔
گزشتہ اتوار کو اپوزیشن اتحاد نے عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ان کے منصب سے ہٹا دیا ہے۔ اب اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے مشکل دن شروع ہوچکے ہیں۔
میرے مطابق 1987ء سے شروع کی گئی تحریک کے نتیجے میں انہیں جو حکومت ملی اس کے ساڑھے 3 سالوں میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور اس ساکھ کی بحالی میں ابھی وقت لگے گا۔
ان کا نعرہ تھا کہ یہ اس ناانصافی اور عدم مساوات کو ختم کریں گے جس کا عوام کو ایک طویل عرصے سے سامنا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مسلسل ناکامی کے ساتھ ان کی ناکامی بھی ہے جن کے پاس حقیقتاً اختیارات موجود ہیں، اور پاکستان میں سیاسی پنڈت انہیں اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔
یہ ایک عام خیال ہے کہ عمران خان کا زوال ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ جن لوگوں نے انہیں ہٹایا ہے وہ یہی کہتے ہیں کہ عمران خان نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔
آراء میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس دوران ملک کا اقتدار ان کے پاس تھا اس دوران وہ بدقسمتی سے عالمی معیار کے آل راؤنڈر کے طور پر اپنی حیثیت اور ایک سیاسی شخصیت کے طور پر ان کے کردار کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ کرکٹ اور سفارتکاری مختلف چیزیں ہیں اور اب انہیں کرکٹ سے زیادہ سفارتکاری کرنی ہے۔
ورلڈ کپ جیت کر اپنی قوم کا سر فخر سے بلند کرنا ان کی کامیابی تھی۔ اپنی مرحوم والدہ کی یاد میں ایک کینسر اسپتال کا قیام بھی ان کی زندگی کا ایک اہم قدم تھا۔ ان کی والدہ قیامِ پاکستان کے وقت جالندھر سے ہجرت کرکے آئیں تھیں۔
انہیں جس طرح اقتدار سے ہٹایا گیا ہے اس پر ملک میں اور بیرون ملک مقیم ان کے مداحوں کی طرح مجھے بھی افسوس ہے۔ اکثر لوگوں کی طرح میرا بھی یہ خیال ہے کہ اگر انہوں نے اپنے وعدے پورے کیے ہوتے تو شاید وہ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے جانے والے ملک کے پہلے وزیرِاعظم بننے کی ہزیمت سے بچ جاتے۔
کہتے ہیں غلطی انسان ہی کرتا ہے اور اسے معاف کرنا ایک اچھا عمل ہے۔ لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے اس پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اس بات کا تجربہ ہمیں اپنی زندگی میں ہوتا ہے۔ عمران خان سے میری ملاقات 1976ء میں اتفاقاً ہی میرے لندن کے اپارٹمنٹ میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے میں بحیثیت کرکٹر اور پلے بوائے ان کا معترف رہا ہوں جس کا دنیائے کرکٹ کو اس وقت معلوم ہوا جب وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے۔
عمران خان سے میری ملاقات 1976ء میں ہوئی
میرے اپارٹمنٹ میں ہونے والی ملاقات کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ جب عمران خان وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے والے تھے تو میں نے یہ کہانی بھارت کے خلاف ایجبسٹن ٹیسٹ کے دوران بی بی سی کے انٹرویو میں ایلیسن مچل، جم میکس ویل اور چارو شرما کو سنائی تھی۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہالینڈ میں کرکٹ کوچنگ سے واپس آکر میں ایک روز اپنے لندن کے اپارٹمنٹ میں سو رہا تھا کہ میں نے اپنے فلیٹ کے کچن میں کسی کی آواز سنی۔ میں اس خیال سے اٹھا کہ وہ میرا دوست ہوگا جسے میں نے اپنی غیر موجودگی میں فلیٹ کی دیکھ بھال کے لیے چابی دی ہوئی تھی۔ لیکن مجھے اس وقت حیرانی ہوئی جب میں نے اپنے کچن میں عمران خان کو پایا جو دودھ کی بوتل تلاش کررہے تھے۔
وہ بھی مجھے دیکھ کر حیران ہوئے اور مجھے پہچاننے کے بعد مجھ سے معذرت کی کہ میری غیر موجودگی میں بغیر اجازت وہ یہاں آکر رہتے رہے ہیں۔ انہیں میرے دوست نے ہی فلیٹ کی چابی دی تھی۔ میں نے انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ جب بھی وہ کاؤنٹی میچوں سے فارغ ہوں تو یہاں آسکتے ہیں۔
ان کے دوست سرفراز نواز اور جاوید میانداد بھی جب لندن آتے تو میرے فلیٹ میں ہی ٹھہرتے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ایک صحافی اور سابق کرکٹر کی حیثیت سے میں نے انہیں ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے۔
ایسا کچھ عرصے تک جاری رہا لیکن پھر اچانک عمران خان نے آنا چھوڑ دیا۔ مجھے اطلاع ملی کہ ایسا ٹیم میں موجود ساتھیوں کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ انہوں نے عمران خان کو بتایا کہ میں ان کی موجودگی کو پسند نہیں کرتا۔ مجھے ان کے ایسا کرنے پر بہت افسوس ہوا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ عمران خان ’سنی سنائی باتوں‘ پر یقین کرلیتے ہیں۔l
ان کی یہ کمزوری 1992ء کے ورلڈ کپ کے دوران مزید عیاں ہوگئی جب میں بھارتی ٹیم کے ساتھ ورلڈ کپ سے قبل 92ء-1991ء کی سیریز کور کررہا تھا۔ عمران خان نے مجھ پر الزام عائد کیا کہ میں نے کچھ ماہ قبل شارجہ میں بھارت کی جیت پر جشن منایا تھا۔ مجھے اس بات کی بہت زیادہ حیرانی ہوئی کیونکہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں یہ کہانی ایک بھارتی صحافی نے سنائی تھی۔ وہ صحافی شارجہ کے میچ میں مجھ سے الجھ چکا تھا۔ اس کا نام جنوبی افریقہ جانے والے صحافیوں کے لیے تجویز نہیں ہوا تھا اور وہ اس کا ذمہ دار مجھے سمجھتا تھا۔
1991ء میں نیلسن منڈیلا کے رہا ہونے کے بعد جنوبی افریقہ کا وائٹ اور بلیک کرکٹ بورڈ یونائیٹڈ کرکٹ بورڈ میں ضم ہورہا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر علی نے صحافیوں کو دعوت دی تھی۔ کچھ بھارتی صحافیوں کو مہیر بوس کی تجویز پر دعوت دی گئی تھی جو میری طرح لندن میں رہتے تھے اور آج بھی رہتے ہیں۔
اس حوالے سے عمران خان کے ساتھ میری مدبھیڑ ایڈیلیڈ ایئرپورٹ پر جہاز میں ہوئی تھی جس میں پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیم سوار تھی۔ اس دوران جاوید میانداد نے عمران خان کو اور ریڈیو پاکستان کے ایک پروڈیوسر نے مجھے قابو کیے رکھا۔ اگر جاوید میانداد عمران خان کو نہ پکڑتے تو معاملہ قابو سے باہر ہوسکتا تھا۔
مجھے بہت افسوس ہوا کہ وہ ایک بار پھر جال میں آگئے اور کسی اور کی کہی بات پر یقین کرلیا۔ اس سے میرا یہ خیال تو یقین میں بدل گیا کہ وہ ’کان کے کچے‘ ہیں اور اپنے اردگرد ہونے والی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں۔ یہ اقتدار میں موجود لوگوں کی مشترکہ خامی ہوتی ہے۔
میرے خلاف اپنے غصے کا پس منظر جاننے کے بعد اور اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد وہ لارڈز کے پریس باکس میں میرے پاس آئے اور مجھ سے ہاتھ ملایا، اس وقت سارا پاکستان اور میڈیا یہ دیکھ رہا تھا۔ میں نے انہیں معاف کردیا اور ہماری پھر سے دوستی ہوگئی۔
ان کی یہ خامی اس وقت بھی دُور نہیں ہوئی جب انہیں مسند اقتدار پر بٹھایا گیا۔ اکثر سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ ان کا اقتدار میں آنا ایک غیر شفاف اور غیر منصفانہ الیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہوا۔
بلاشبہ ان کے زوال میں ان کی اس خامی کا بھی عمل دخل ہے کہ وہ حقیقت اور فسانے میں فرق نہیں کرتے اور اسے خود ان کی جماعت کے لوگوں اور ان کے حامیوں نے بھی محسوس کیا ہے۔ میں امید ہی کرسکتا ہوں کہ یہ حقیقیت نہ ہو۔
بحیثیت کرکٹر میں ہمیشہ سے ان کا معترف رہا ہوں اور شاید ہی میں نے کبھی ان کی ذاتی زندگی اور 2 ناکام شادیوں کا ذکر کیا ہو۔ ایک پیرنی سے ان کی تیسری شادی ان کے پرستاروں کے لیے حیرت کی بات تھی اور اس سے ان کی شخصیت کا ایک نیا پہلو سامنے آیا۔ جب انہوں نے ہاتھ میں تسبیح لے کر خود کو ایک پرہیزگار شخص کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا، مذہب کے حوالے دینے لگے اور طالبان سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگے تو اس عمل نے مغربی دنیا اور عالمی سیاست کے اہم پالیسی سازوں کو ناراض کردیا۔
اپنی اس شخصیت اور پھر امریکا کو اپنے پڑوس میں اور اس سے پرے تمام تر مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانے جیسی سیاسی غلطیاں سفارتی اور مالی طور پر دیوالیہ ملک کے لیے نقصاندہ ثابت ہوئیں۔ ان کا متضاد باتیں کرنا اور ریورس سویپ کھیلنا ہی انہیں لے ڈوبا۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی پر تنقید کی۔ انہوں نے مودی کو ہٹلر سے اور ان کی جماعت کو نازیوں سے تشبیہہ دی۔ پھر وہ اپنی تقریروں میں لوگوں کو یہ بتانے لگے کہ بھارت کا سیاسی نظام بہترین ہے۔ یہ بات ان لوگوں کو بالکل اچھی نہیں لگی جو پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
عمران خان نے پاکستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے طرزِ زندگی کو بہتر بنائیں گے لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوسکا۔ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے بجائے عمران خان نے ان پر تنقید شروع کردی جو انہیں اقتدار میں لائے تھے۔
ماہرین کے مطابق ان کی بدلہ لینے اور مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی سیاست بھی کسی کام نہ آئی۔ انہوں نے وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی بات کی لیکن وہ اب بھی برقرار ہے۔ انہوں نے غریبوں کے لیے لاکھوں گھر بنانے کا وعدہ کیا جو پورا نہ ہوا۔ انہوں نے جن صوبوں کا خیال رکھنا تھا اس میں سے کچھ کو انہوں نے بالکل توجہ نہیں دی۔
عمران خان نے اپنے محسنوں کو بھی فراموش کردیا۔ انہوں نے جہانگیر ترین، علیم خان اور نواز شریف جیسے لوگوں کو بھلا دیا جنہوں نے عمران خان کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا۔ عمران خان نے انہیں ہی جیلوں میں ڈلوایا اور ان کی تذلیل کی۔
وہ اپنی انا اور تکبر سے باہر ہی نہ نکل سکے۔ یہاں تک کہ اس آخری لمحے بھی کہ جب انہیں اقتدار سے بے دخل کیا جارہا تھا تو وہ اپنے تکبر کے باعث عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنے نہیں آئے۔
کاش کہ ان میں دوست اور دشمن کی پہچان کی صلاحیت ہوتی تو وہ کامیابی سے اس قوم کی قیادت کرسکتے۔ بدقسمتی سے وہ اپنی اس خامی کو دُور نہ کرسکے اور یہی خامی ان کے زوال کا سبب بنی۔