آخری حصہ
یہاں تک تو بات واضح ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں اصل تباہی بارشوں سے ہوئی ہے اور سیلاب سے نہیں ۔ سیلاب سے سندھ میں گزشتہ ہفتے ہی تباہی آئی ہے اور یہ بھی منچھر جھیل میں کٹ لگانے کی وجہ سے آئی ہے ۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہ آنے والی ہے کہ جب منچھر جھیل میں سندھ کے پہاڑوں کا بارش کا پانی جمع ہورہا تھا تو اسی وقت اس کی نکاس کے لیے گیٹ کیوں نہیں کھولے گئے ۔ اُس وقت دریا میں سیلابی صورتحال نہیں تھی اور پانی بہ آسانی ڈرین ہوسکتا تھا ۔ جب دریا میں سیلابی پانی آگیا اور دریا کی سطح بلند ہوگئی تو ذمہ داروں کو خیال آیا کہ منچھر جھیل کی سطح خطرناک حد تک بلند ہوگئی ہے ۔ دیر سے نکاسی کے فیصلے کی بنا پر نہ صرف جھیل کے پشتوں میں کٹ لگانے پڑے بلکہ دریا کی سطح بلند ہونے کے باعث دریا نے پانی الٹا جھیل کی جانب دھکیل دیا ۔ اس کے باعث لاکھوں ایکٹر قابل کاشت اراضی پر لگی فصل ضائع ہوئی اور اب اس پر مہینوں پانی کھڑا رہے گا ، یوں گندم کی فصل بھی متاثر ہوگی۔
بلوچستان میں اور سندھ میں بارشوں سے تباہی کی داستان میں قدر مشترک برساتی پانی کے بہاو میں رکاوٹ ڈالنا ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جس کی طرف میں نشاندہی کررہا ہوں ۔ 2019 میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی حکم جاری کیا تھا کہ شمال سے جنوب کی طرف آنے والے پانی کے قدرتی بہاو کو بحال کیا جائے ۔ 2010 میں آنے والا سیلاب بہت کچھ سکھانے کے لیے کافی تھا ۔ اسی وقت اس طرف توجہ دلائی گئی تھی اور منصوبہ بھی بنایا گیا تھا جس کے تحت قدرتی بہاو کی بحالی کے ساتھ ساتھ سیلابی پانی کی روک تھام کے لیے20 پرانی جھیلوں کو ڈھونڈنا اور انہیں بحال کرنا تھا ۔ اس منصوبے پر عمل بھی ہوا ، اس کے لیے عالمی قرضہ بھی وصول کیا گیا اور کام بھی مکمل ہوگیا مگر صرف کاغذات پر ۔ تجاوزات جوں کی توں قائم رہیں ، سو نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔
بلوچستان میں قدرتی بہاو کو روکنے کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز نے تباہی پھیلائی ، وہ ہے ڈیم ٹوٹنا۔ خبر رساں ایجنسی اے پی پی کی 27 اگست 2022 کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں حالیہ بارشوں میں پچاس سے زیادہ چھوٹے ڈیم ٹوٹ گئے ۔ اس کا دہرا نقصان ہوا ۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھیں کہ جب ڈیم ٹوٹے گا تو اس سے جمع شدہ پانی ایک دم سیلابی ریلے کی صورت میں نکلے گا اور وہ راستے کی ہر چیز کو بہا لے جائے گا ۔ بستیاں بھی اور پل بھی ۔ یہی کچھ بلوچستان میں ہوا ۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ یہ پانی آئندہ ایک برس تک مذکورہ علاقے کی ضروریات پوری کرتا ، اب یہ علاقے پانی کی بوند بوند کو ترساں ہوں گے ۔
یہ نہیں ہے کہ سندھ میں چھوٹے ڈیم نہیں ٹوٹے۔ یہاں بھی ٹوٹے مگر کم تعداد میں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ڈیم تھے ہی اتنے۔ سندھ حکومت نے ڈیم بنائے ہی نہیں تھے ، اگر ہوتے تو وہ بھی ٹوٹتے ۔ کراچی سے لے کر سکھر تک مین نیشنل ہائی وے ابھی تک بند ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راستے میں نہروں پر بنائے گئے سارے ہی نئے پل ٹوٹ گئے ہیں ۔ کیا کوئی سوال کرسکتا ہے کہ انگریز کے دور کے سو سالہ پل کیوں ہر سیلاب سہار جاتے ہیں اور سندھ حکومت کے بنائے گئے سارے ہی پل کیوں ٹوٹ گئے ۔
اب دیکھتے ہیں سندھ کی اصل تباہی کی داستان ۔ بارشیں شروع ہوتے ہی بلاتخصیص سندھ کے سارے ہی دیہاتوں اور شہروں میں پانی جمع ہوگیا ۔ کیا کراچی ، لاڑکانہ ، حیدرآباد وغیرہ اور کیا خیرپور ناتھ شاہ اور بدین وغیرہ ۔ سندھ سرکار نے کہا کہ چونکہ بارشیں اوسط سے زیادہ ہوئی ہیں ، اس لیے پانی جمع ہوگیا ۔
اگر آپ کی چھت پر پانی کی نکاس کی گنجائش سے زیادہ بارش ہوجائے تو کیا ہوگا۔ یہی کہ چھت پر پانی جمع ہوجائے گا اور جیسے ہی بارش رکے گی ، تھوڑی دیر میں پانی بھی نکل چکا ہوگا، پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے سوائے سندھ کے ۔ ابھی دو دن پہلے سید مراد علی شاہ اور بلاول زرداری نے احکامات جاری کیے ہیں کہ لاڑکانہ سے تین دن کے اندر اندربارش کا پانی نکال دیا جائے ۔ اتنے دن تک لاڑکانہ جیسے شہر میں پانی جمع رہنے سے ایک عام فہم آدمی بھی مسئلہ سمجھ سکتا ہے کہ جناب یا تو شہر میں سیوریج کا نظام خراب ہے یا پھر موجود ہی نہیں ہے ۔
کراچی جیسے شہر کے ڈیفنس جیسے علاقے میں بھی اگر بارش رکنے کے بعد بھی کئی روز تک پانی جمع ہو اور اسے نکالنے کے لیے پمپ کی ضرورت پڑے تو معاملہ سمجھنے کے لیے بہت زیادہ راکٹ سائنس جاننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس مرتبہ خیابان اتحاد جیسی اہم شاہراہ ہی پوری کھود دی گئی کہ پانی کی نکاسی نہیں ہو رہی تھی ۔
اب ہم معاملات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر شہروں میں نکاسی کا نظام موجود ہوتا یا کام کررہا ہوتا تو سندھ میں بارش سے متاثرین اتنے نہیں ہوتے ۔ سیلاب پاکستان میں آیا ہی نہیں ہے ۔ اگر منچھر جھیل کو مناسب طریقے سے ہینڈل کیا جاتا تو دادو کا علاقہ نہیں ڈوبتا، اگر قدرتی پانی کے بہاو کی رکاوٹیں ختم کردی جاتیں اور گھوٹکی سے لے کر کیٹی بندر تک کچے کا علاقہ صاف ہوتا اور لوگوں کو بروقت وہاں سے منتقل کردیا جاتا تو پھر انسانی اور مالی نقصان شاید ایک فیصد بھی نہیں ہوتا ۔
بلوچستان میں اگر ڈیم نہ ٹوٹتے اور قدرتی بہاو میں لوگ نہ آباد ہوتے تو وہاں بھی قدرتی آفت کے بجائے یہ بارش اللہ کی رحمت ہوتی ۔ اگر پل اور ڈیم مضبوط ہوتے توسب صحیح ہوتا۔
ایک اور بات ۔ سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچے کے علاقے ہر طرح کے مجرموں کی کمین گاہیں ہیں ۔ کچے کے علاقے میں پانی آنے کے ساتھ ہی یہ مجرم بھی علاقہ بدر ہوجاتے ہیں ۔ اگر اس وقت انتظامیہ آنکھ کھلی رکھے اور وہاں سے آنے والے لوگوں کی اسکریننگ کرلے تو یہ مجرم بھی قابو کیے جاسکتے ہیں ۔ اس کے بجائے ہر مرتبہ ان مجرموں کو دیگر متاثرین کے ساتھ بحفاظت یہی انتظامیہ دیگر شہروں میں بساتی ہے جس سے وہاں کے جرم کا تناسب بڑھ جاتا ہے ۔
اب ہم سندھ اور بلوچستان میں تباہی کے اصل مجرموں کو جان سکتے ہیں ۔ یہاں پر امدادی سرگرمیوں کے نام پر کھیلے جانے والے سرکار اور امدادی ایجنسیوں کے کردار کو بھی پہچان سکتے ہیں ۔ یہی وہ مہرے ہیں جو کسی بھی قوم کو عالمی ساہوکاروں کے ہاتھوں میں گروی رکھتے ہیں اور انہیں عملی طور پر غلام بناتے ہیں ۔
اب آخری سوال بچتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں ہونے والی حالیہ بارشیں کیا قدرتی تھیں یا مصنوعی ۔ اس سوال کا جواب آئندہ آرٹیکل میں بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔