لاہور۔ (اے پی پی/ بیورو رپورٹ )وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے ، آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہ جاتے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا،سیلاب نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے، جو نقصانات ہوئے ہیں ان کا ازالہ کرنا اکیلے ہمارے بس میں نہیں ہے،ہماراتجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے ،اس تجارتی خسارے سے ملک نہیں چل سکتا، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی 15فیصد کر لیں تو ہرجگہ پیسے نہیں مانگنے پڑیں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو یہاں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری میں تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر چیئرمیں ایف بی آرعاصم احمد لاہور چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر میاں نعمان کبیراور تاجروں کی کثیر تعداد موجود تھی۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک اس وقت مسائل کا شکار ہے، سیلاب سے انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، 3کروڑ 30لاکھ سے زائد لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جو 55لاکھ خاندان بنتے ہیں 17 لاکھ مکان تباہ اور 10لاکھ جانور ہلاک ہو چکے ہیں ، سیلاب سے 18.5بلین دالر کا نقصان ہوا ہے، اس وقت سندھ میں چاول اور کاٹن کی دو تہائی فصل تباہ ہو چکی ہے، ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر سڑکیں اور 246پل مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں ، وفاقی وزیر خزانہ سیلاب زدگان کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے ۔ انہوں نے کہا کہ جب ہمیں حکومت ملی تو اس وقت خزانے میں 10.5بلین ڈالر تھے جبکہ 12سے13ارب ڈالر کے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا تھا اگر ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہ جاتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا۔انہوں نے کہاکہ ہماری صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات ہوتی ہیں جبکہ دیگر شعبوں میں ہماری برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں مزید شعبوں میں بھی برآمدات پر جانا ہوگا۔ ایک سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم صرف برآمدات پر ایل سی کھولیں گے جبکہ درآمدات کی ایل سی نہیں کھول رہے ،میرے بیٹے کی مل کیلئے بھی ایل سی کھولنے کی اجازت نہیں ہے، ستمبر میں امپورٹ کھولنا چاہتے تھے لیکن سیلاب آگیا،30بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرنے والے ملک کو 80ارب ڈالر درآمدات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک سیالکوٹ نہیں بلکہ دس سیالکوٹ بنانے چاہیئں ،4سے5ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کرسکتے ہیں، سری لنکا کی مثال دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ سری لنکا کی نیشنل سیونگ 28فیصد جبکہ پاکستان کی 12فیصد ہے یہی وجہ ہے کہ اب دنیا پاکستان کو قرض نہیں دیتی اور دینا بھی نہیں چاہتی ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا تجارتی خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے ملک کو چلانا ناممکن ہے، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی 15فیصد کرلیں تو ہمیں ہر جگہ پیسے نہیں مانگنے پڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ جب دنیا میں تیل کی قیمت 100ڈالر سے اوپر اور گیس کی 40ڈالر ہوجائے تو مشکلات بڑھتی ہیں ۔فرنس آئیل اور کوئلہ بھی مہنگا ہو گیا ہے،کوئلہ ہمیشہ 50سے 70ڈالر کا تھا اب 300ڈالر کا ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بجلی کی پیداوار بڑھا کر بھی کوئی فائدہ مند کام نہیں ،نواز شریف کے دور میں ہم نے بجلی کی پیداوار دوگنا کردی تھی لیکن کیا اس سے صنعتیں ڈبل ہوئیں یا روز گار بڑھا، ہم نے یہاں بجلی بڑھا کر شادی ہال ہی زیادہ بڑھائے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بدل گئی ہے ہم پرانی دنیا میں نہیں رہ رہے، ہمیں یہ پکا پتا نہیں تھا کہ ہم حکومت میں رہیں گے یا پھر نگران حکومت آ جائے گی،لیکن ہم پی ٹی آئی کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ ہمیں ملکی حالات معلوم نہیں تھے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر 660ارب روپے کی سبسڈی دی، ڈیزل پر اس وقت صرف ساڑھے سات روپے جبکہ پٹرول پر 38 روپے ٹیکس ہے ۔بجلی کے بلوں میں اضافہ کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کے بل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں جس کا مجھے احساس ہے انہوں نے جرمنی اور فرانس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں اڑھائی سو روپے کا یونٹ ہے جا مشورو پلانٹ میں جو بجلی بنتی ہے اس کی فی یونٹ لاگت 59روپے ہے،پنجاب سے 80فیصد ریونیو بجلی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں 51فیصد ٹیکس سروسز سے حاصل ہوتا ہے 2010سے سرکلر ڈیٹ بڑھ رہا ہے جس میں 2500ارب بجلی اور 1500ارب گیس کا سرکلر ڈیٹ ہے ۔انہوں نے کہا کہ درجہ حرارت میں صرف ایک ڈگری اضافے سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ وزیر اعظم کے دوبیٹو ں کی شوگر مل پر 10فیصد ٹیکس بڑھایاہے اس پر شاباش ملنی چاہئے تقریب سے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی صدر میاں نعمان کبیر نے بھی خطاب کیا۔