محتسب کا دفتر عدلیہ کا حصہ ہے، اسے ایگزیکٹو کے کنٹرول میں نہیں دیا جا سکتا:سندھ ہائی کورٹ
صوبائی محتسب کی تقرری میں ترمیم، آئین کے آرٹیکل 101 تا 105 کی روح کے خلاف ہے
آئینی درخواست کی سماعت چیف جسٹس احمد علی شیخ اور جسٹس یوسف علی سعید پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی
صوبائی محتسب اعلی کی تقرری کا اختیار وفاق سے چھین کر وزیر اعلی سندھ کے پاس رکھنے کے خلاف پاسبان کی آئینی درخواست کی سماعت کے موقعہ پر سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ محتسب کا دفتر عدلیہ کا حصہ ہے، اسے ایگزیکٹو کے کنٹرول میں نہیں دیا جا سکتا۔ پاسبان کی آئینی درخواست کی سماعت چیف جسٹس احمد علی شیخ اور جسٹس یوسف علی سعید پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے وکلاء نے سندھ ہائی کورٹ میں ججمنٹ جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ محتسب کا عہدہ عدلیہ کا حصہ ہے اس لیے اختیارات کی علیحدگی کے اصول کے تحت اسے ایگزیکٹو کے کنٹرول میں نہیں دیا جاسکتا۔ جس کے جواب میں حکومتی وکیل نے دلیل دی کہ کسی قانون کو صرف اسی صورت میں کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے جب یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہو۔ عدالت نے سرکاری وکیل کی دلیل کو اطمینان بخش قرار نہ دیتے ہوئے دلائل دینے کے لیے مزید مہلت دیتے ہوئے سماعت 19 جون تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ پاسبان کی جانب سے دائر کردہ آئینی درخواست نمبر 929/2020میں ایڈووکیٹ عرفان عزیز نے اپنے اعتراضات داخل کروائے تھے جس میں سندھ کے صوبائی محتسب کا دفتر صوبائی ایگزیکٹو /وزیر اعلی کے کنٹرول میں دینے کے غیر قانونی قانون کو چیلنج کیا گیا تھا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلی کا مقرر کردہ محتسب اور صوبائی حکومت کے سرکاری افسران، حکومت کی بد انتظامی کو کیسے چیک کرسکتے ہیں؟ صوبائی محتسب کی تقرری اور تعیناتی میں کی گئی ترمیم آئین کے آرٹیکل 101 تا 105 کی روح کے خلاف ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں گورنر کے تمام آئینی فرائض ختم کردیئے گئے ہیں۔ جب چیف منسٹر خود کرپشن کرے گا تو اس کا سیکریٹری یا اس کا مقرر کردہ افسر اس کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے؟ محتسب کوہر قسم کے دباؤ سے آزادہونا چاہئیے تا کہ وہ اپنے فرائض منصبی شفاف طریقے سے اور غرجانبدارانہ طور پر انجام دے سکے۔یہ بل صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں کے ضابطہ اخلاق کو دیکھے بغیر منظور کیا گیا تھا#