پانچ اضلاع کے سوا پورا صوبہ سندھ متاثر ہے،ڈھائی سو گائیں ہلاک ہوچکیں، اٹھائیس ہزار مویشی متاثر،تیرہ ہزار صحت یاب ہوگئیں ۔۔
ویکسین کی بیس لاکھ خوراکیں منگل تک ترکی سے پہنچ جائیں گی ۔۔ڈی جی لائیو اسٹاک سندھ
کرا چی (بیورورپورٹ ) ڈاؤ یونیورسٹی نے محکمہ لائیوسٹاک سندھ کے اشتراک سے بووائن لمپی (لمپی اسکن) ڈیزیز کی ویکسین جلد بنانے کا اعلان کردیا ہے ۔ یہ بات یونیورسٹی کی پرووائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ اوجھا کیمپس کے عبدالقدیر خان آڈیٹوریم میں ایسوسی ایشن آف مالیکیولر اینڈ مائیکرو بیال سائنسز کے اشتراک سے منعقد ہونے والے سیمینار بہ عنوان "کرنٹ اسٹیٹس اینڈ وے فارورڈ ٹو تھراپی اینڈ پری وینشن” سے خطاب ہوئے کہی ۔۔ان سے پہلے ڈائریکٹر جنرل لائیو اسٹاک سندھ ڈاکٹر نذیر حسین کلہوڑو ،پرنسپل ڈاؤ کالج آف بائیوٹیکنالوجی پروفیسر مشتاق حسین نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر نصرت شاہ نے کہا کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق لمپی اسکن ڈیزیز کے انسانوں میں منتقلی کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں نہ ہی کوئی دودھ یا گوشت میں اسکے اثرات ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ ملک میں لوگوں کے پروٹین کے استعمال میں کمی دیکھی گئی ہے اس لیے ضروری ہے کہ گوشت کا استعمال ترک نہ کیا جائے۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ ویٹرنری کی جانب آئیں کیوں کہ ہمارے یہاں ویٹرنری ڈاکٹرز کی کمی ہے۔قبل ازیں سیمینار سے خطاب، میڈیا اور طلبہ کے سوالوں کے جواب میں سیمینار کے کلیدی مقرر ڈائریکٹر جنرل لائیو اسٹاک سندھ ڈاکٹر نذیر حسین کلہوڑو نے بتایا کہ صوبہ سندھ کے پانچ اضلاع اس بیماری سے محفوظ ہیں باقی پورے صوبے میں یہ بیماری پھیل چکی ہے۔ 23 مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں اٹھائیس ہزار 857 گائے کی بیماری سے متاثر ہیں جبکہ 250 کے لگ بھگ مویشی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے یہاں سوشل میڈیا پر لمپی اسکن ڈیزیز کو چھوت کی بیماری یا انسانوں کے لئے موذی یا مہلک بیماری بتایا جا رہا ہے۔یہ غلط تصویر ذہنوں سے کھرچنے کی ضرورت ہے کہ لمپی اسکن ڈیزیز انسانوں میں منتقل نہیں ہوتی بلکہ یہ جانوروں میں بھینس بکری یا بھیڑ میں نہیں ہوتی، بلکہ صرف اور صرف گائے میں یہ بیماری پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ سو سال سے یہ بیماری موجود ہے آج تک کسی انسان میں منتقل ہونے کے کوئی شواہد نہیں مل سکے- انہوں نے کہا کہ نومبر کے مہینے کے دوران صوبہ سندھ کے منظور آباد ضلع جامشورو میں اس بیماری کے شواہد ملے اس سے پہلے پنجاب میں یہ بیماری آ چکی تھی پھر لسبیلہ بلوچستان میں بھی یہ بیماری ملی تھی۔ ہم نے فوری طور پر یہ جمع کرکے وفاق کو بھیجے اور ڈیٹا کلیکشن اور اسٹڈی شروع کردی گئی، وفاقی حکومت اور صوبوں کا اس بیماری کے معاملے پر باہم گہرا رابطہ رہا۔ وفاق نے نے چار مارچ کو لمپی اسکن ڈیزیز کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں ویکسین کی 30 ہزار خوراک میں موجود ہیں جنہیں متاثرہ علاقوں کے اطراف میں جانوروں کو لگایا جارہا ہے۔ 4 مارچ کو ہی وفاقی حکومت کو ویکسین کے لیے لکھ دیا گیا تھا، ویکسین کی 40 لاکھ خوراکیں ہنگامی طور پر ترکی سے منگوائی جا رہی ہیں۔ اپنی ویکسین 8 سے 9 ماہ میں تیار کرلیں گے باہر ممالک سے ویکسین مہنگی پڑتی ہے۔اس کے لیے حکومت سندھ نے فنڈ فراہم کر دیے ہیں اس کا اجازت نامہ آج جاری ہو جائے گا آئندہ ہفتے منگل کے روز تک ہمیں ویکسین کی بیس لاکھ خوراکیں پہنچ جائیں گی جبکہ بیس لاکھ مزید اور اس کے بعد دوسری کھیپ میں آئیں گی انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کی جانب سے ویکسین جانوروں کو مفت لگائی جائے گی۔ اب سوشل میڈیا پر ایک طوفان ہے سب سے پہلے تو سمجھ لیجئے کہ ہمارے یہاں زیادہ تر بھینسوں کا دودھ استعمال ہوتا ہے جو گائے بھی اس بیماری سے متاثر ہوتی ہے وہ دودھ دینا بند کر دیتی ہے بیماری سے متاثرہ گائے کے ذبیحے پر پابندی لگا دی گئی ہے صوبے بھر میں کہیں بھی بیماری سے متاثرہ گاۓ کو ذبح نہیں کیا جا رہا۔ بالفرض کہیں سے غیرقانونی ذبیحہ یا کسی اور طریقے سے متاثرہ گوشت کسی شہری تک پہنچ بھی گیا تو یہ بات مصدقہ اور مسلمہ ہے کہ اس جانور کا گوشت انسانی صحت کے لئے مضر نہیں ہے
جس مویشی کو ویکسین لگے گی وہ تاحیات اس بیماری سے محفوظ رہے گا بعض افراد نے نجی طور پر ویکسین درآمد کر کے مویشیوں کو لگوائیں وہ قابل اعتبار نہیں ہے اس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اسمگل یا کسی بھی غیر قانونی طریقے منگوائی گئی لائیو ویکسین ماہرین کی نگرانی میں نہ لگوائی جائے تو اس سے نقصان ہوتاہے جب سے ہم نے اس قسم کی ویکسین استعمال نہ کرنے پر فارمرز کو سمجھایا ہے تو اس کے بعد اس بیماری کے پھیلنے میں کمی آئی ہےحکومت سندھ نے خاص طور پر اس بیماری کی ویکسین درآمد کی ہے جو بہت زیادہ موثر ہے انہوں نے بتایا کہ سندھ میں 13 ہزار جانور اس بیماری سے صحت یاب ہو چکے ہیں وہ تاحیات امیون ہوگئے۔ویکسین آتے ہیں ہزار افراد پر مشتمل حکومت کی ٹیمیں دو سو گائیں فی یوم کے حساب سے ویکسینیشن کریں گی، دس سے بارہ روز میں ہماری ٹیمیں دو لاکھ گائیوں کو ویکسین لگادیں گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بیماری کے بارے میں افواہیں پھیلائی جاتی ہیں یہ بہت غلط رجحان ہے۔ ماضی میں برڈفلو کو بہت خطرناک بیماری کہہ کر افواہیں پھیلا دی گئی تھی اب سوشل میڈیا پر ایک طوفان ہے سب سے پہلے تو سمجھ لیجئے کہ ہمارے یہاں زیادہ بھینسوں کا دودھ استعمال ہوتا ہے جو گائے بھی اس بیماری سے متاثر ہوتی ہے وہ دودھ دینا بند کر دیتی ہے بیماری سے متاثرہ گائے کہ ذبیحے پر پابندی لگا دی گئی ہے صوبے بھر میں کہیں بھی بیماری سے متاثرہ گاۓ کو ذبح نہیں کیا جا رہا۔ بالفرض کہیں سے غیرقانونی ذبیحہ یا کسی اور طریقے سے متاثرہ گوشت کسی شہری تک پہنچ بھی گیا تو یہ بات مصدقہ اور مسلمہ ہے کہ اس جانور کا گوشت انسانی صحت کے لئے مضر نہیں ہے سیمینار کےآخر میں پروفیسر مشتاق حسین نے مقررین کا شکریہ ادا کیا اور انہیں شیلڈز دی گئیں ۔۔