کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پانچ عہدوں پر فائز بے تاج بادشاہ محمد عرفان بیگ سمیت کراچی سسٹم کے دیگر افسران اربوں روپے زمینوں پر قبضہ، اختیارات کا ناجائز استعمال، رشوت،کک بیک کمیشن وصول کرنے سمیت دیگر الزمات سے ایک بار پھر بچ گئے اس ضمن میں سیکریٹری بلدیات سندھ سید نجم احمد شاہ کے دستخط سے جاری ہونے خط نمبرNO.SO(L&C)/HTP/MDDA/1-15/2021بتاریخ 21مارچ 2022ء کو جاری ہونے والے حکمنامہ میں ڈائریکٹر قانون عرفان بیگ کو مجاز ادارہ کی منظوری سے ملازمت سے معطل کر کے محکمہ ہاوسنگ اینڈ ٹاون پلاننگ بلدیات سندھ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ان کی معطلی کے حکمنامہ میں نہ انکوائری کمیٹی بنائی گئی نہ ہی تیسر ٹاون میں ایک پولیس اہلکار شہید اور ایک بے گناہ راہگیر جاں بحق ہونے کا حوالے دیا گیا ہے۔وہ کراچی سسٹم کا حصہ ہیں اسی لیئے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ، چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ، سیکریٹری بلدیات سید نجم شاہ کے فرنٹ مین عرفان بیگ کی گرفتاری کے بجائے صرف ملازمت سے معطلی پر کئی سوالات اٹھ گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی اربوں روپے زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزامات میں اتھارٹی کے سینئر افسران ناصر خان، انتخاب عالم، عرفان بیگ، لیئق احمد سمیت اس طرح کے دیگر افسران پہلے بھی کئی بار ملازمت سے معطل ہو چکے ہیں اور پھر بغیر کسی تحقیقات کے وہ ملازمت پر بحال کردیئے گئے تھے۔لگتا یوں ہے کہ جب چمک کے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو معطلی کا پروانہ پکڑا دیا جاتا ہے پھر جب معاملات طے ہو جاتے ہیں تو خاموشی سے بحال کر دیا جاتا ہے۔چوہے بلی کا یہ کھیل پورے سندھ میں ہر محکمے میں کھیلا جاتا ہے۔قبل ازیں نیب کراچی نے نیا مقدمہ نمبرCVC-5415/MC-575/IO-13/NAB(K)/2021/4764 بتاریخ 25 اکتوبر2021ء کو جاری کیا ہے،جس میں 64 اور34 ایکٹر اراضی دیہہ ناگن تعلقہ منگھوپیر غربی ضلع کراچی نواب اینڈ کمپنی کو الاٹ کی گئی لینڈ کی انکوائری کا لکھا ہے۔نیب کراچی نے ڈائریکٹر جنرل کو خط میں MDA کے افسران کو مذکورہ زمین کا سرکاری ریکارڈ سمیت پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔MDA کے جانب سے بھی گلشن معمار پولیس تھانہ میں ایف آئی آر نمبر 604/21 درج ہے جس کے مطابق 24اکتوبر کو مقدمہ درج کیا گیا ہے۔مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ تیسر ٹاون اسکیم 45 مختلف مقامات پر زمین پر قبضہ ہوگیا ہے اور مزید قبضہ جاری ہے۔مختیاکار منگھوپیر کی ایما پر پٹواری عابد علی شاہ، عبدلجبار کے ساتھ غنی آباد ناکلاس نمبر 114پر غیر قانونی قبضہ کررہے ہیں۔دلچسپ امر یہ کہ قبضہ کرنے والے نام میں MDA کے ڈائریکٹر اسٹیٹ عرفان بیگ اور ڈائریکٹر پلاننگ لیئق احمد کا نام شامل ہے،جبکہ دیگر ملزمان میں علی عباس، مسعو باجوڑی، کریم بخش،عمرانی، عمرخان، شہزاد خان، لائق خان،محمد ناصر عرف منیگل، مرزا مقصود بیگ، میاں محمد انور، فرحان سمیت دیگر لینڈ مافیا کے کارندے شامل ہیں۔ قومی احتساب بیورو، اینٹی کرپشن،ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی ادارے حالیہ ہونے والے سنگین نوعیت کے واقعات کے باوجود خاموشی ہے۔کسی ادارے نے نوٹس نہیں لیا،سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کی واضح احکامات کے باوجود لینڈ مافیا کے خلاف کاروائی نہیں ہوسکی۔ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی لینڈ مافیا کی جنت بن گیا ہے۔مصدقہ ذرائع کا کہنا تھا کہ،ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اسکیم تیسر ٹاؤن میں بڑے پیمانے پر قبضے کروانے،گوٹھیں بنوانے اور غیر قانونی نیلامی کروانے میں ملوث ہیں۔حال ہی میں تیسر ٹاؤن کے بروھی گوٹھ میں پہلے قبضہ کروایا اور پھر بعد میں بغیر نوٹس کے قبضہ چھڑوانے گئے جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا اور ایک راہگیر جاں بحق ہوگیا جس کے نتیجے میں ایس ایچ و گلشن معمار اور ڈائریکٹر اسٹیٹس انفورسمنٹ عرفان بیگ پر 302 ب ت 34 کا مقدمہ درج کرایا ہے۔سرکار ی سرپرستی کا استعمال کرتے ہوئے ظلم کی انتہا ہوگئی کہ سیاسی اثر و رسوخ اور سیاسی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے ہوئے اہل علاقہ پر جھوٹی ایف آئی آر درج کروائی گئی۔15 مارچ کو محمد سچل نامی شخص کا کہنا تھا کہ میرا بھائی تاج دین ولد حاجی بڈھو کی عمر 28 سال ہے وہ عباس گوٹھ میں اپنے گھر کی گلی میں کھڑا تھا ڈائریکٹر محمد عرفان ولد اشفاق، ایس ایچ او اینٹی انکروچمنٹ فیضان کریم اپنے ساتھوں کے ساتھ پونے تین بجے آئے اور آتے ہی فائرنگ شروع کر دی جس سے میرا بھائی تاج دین گولی لگنے سے ذخمی ہو کر گر گیا جو عباسی شہید ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی فوت ہوگیا،جبکہ 15مارچ سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے 80 ارب روپے مالیت کی اراضی واگزار کرانے کا آپریشن روک دیا گی۔ مجموعی طور پر نئی قبضہ اراضی 802 ایکٹر اراضی کا آپریشن کے دوران عباس گوٹھ کا نوجوان گولی لگنے پر جان بحق ہونے کا جواز بنا کر بند کر دیا گیا ہے، جس کا مقدمہ ڈائریکٹر لینڈ، اینٹی انکروچمنت و اسٹیٹ محمد عرفان بیگ اور اینٹی انکروچمنٹ پولیس کے ایس ایچ او فضیان کریم کے خلاف قتل کا مقد مہ دائر کیا گیا ہے۔حال ہی میں 802 ایکٹر مختلف سیکٹروں میں قبضہ کرانے والے افسران نے صر ف چند ایکٹروں پر قبضہ چھڑانے کا دعوی کے بعد آپریشن بند ہوگیا اور اربوں روپے مالیت کے
ان میں لینڈ مافیا کے کارندوں کے زریعہ وحدت گوٹھ، باغ علی گوٹھ،نیک ویلج، خان گوٹھ، مراد بروہی گوٹھ، گلشن گوہرام گوٹھ، علی محمد گوٹھ، گلشن نور، اسلم شاہ گوٹھ، بروہی گوٹھ، غنی گوٹھ، الیاس بروہی گوٹھ، پیر بخش گوٹھ، وریو ویلج، صدیق ویلج، یونس ویلج، پرل ریذیڈنسی،گلشن عائشہ،، گلشن عباس، نور محمد گوٹھ،،غلام حسین وہلج، چیسنر گوٹھ کے نام پر زمین فروخت کررہے ہیں۔تیسر ٹاون کی اسکیم 45 میں مجموعی طور پر اب تک 868 ایکڑ اراضی پر اتھارٹی کے افسران کی ملی بھگت سے لینڈ مافیا کا اربوں روپے کی زمینو ں پر باآسانی قبضہ ہوچکا ہے۔تمام اراضی مختلف سیکٹر میں پبلک ہاؤسنگ،رہائشی و تجارتی، بلڈنگز،کوآپریٹیو سوسائٹیز اور بلند و بالا عمارتوں کے لئے مختص تھی اور نیلامی کے ذریعہ عام شہریوں کو الاٹ کی گئی ہے،جو اپنے واجبات کی آج بھی ادائیگی کر رہے ہیں۔لینڈ مافیا قبضہ ہونے والی زمینوں پر چاردیواری، پکے مکانات، آرسی کنٹریشن، جعلی سوسائٹی، گاوں،گوٹھ کے نام پر خریدو فروخت کھلے عام کر رہی ہیں۔کراچی میں موجود سرکاری اور اس سٹسم سے جوڑے تمام کرداروں کو نامزد کردیا گیا ہے تاہم ایک بھی لینڈ گرببرز نہ گرفتار ہوسکا،نہ پولیس نے کاروائی کی۔لینڈ مافیا آزاد پھر رہے ہیں اوراب بھی لینڈ مافیا زمینوں پر قبضہ کرنے کے گھناونے کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔