اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اب عمران خان کا جانا یقینی ہوچکا ہے اور اگر اس کو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے، شیخ رشید، فواد چوہدری سمیت اگر موجودہ وفاقی کابینہ کو اگر یہ یقین دہانی کرادی جائے کہ ان کی وزارت ختم نہیں ہوگی تو وہ بھی سب عمران نیازی کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دینے کو تیار ہوجائیں گے، اس وقت وزیر اعظم کی زبان نہیں بلکہ ان کے دماغ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، عمران خان سابق وزیر اعظم بن کر اپوزیشن میں آجائیں گے تو اس کے بعد آخر میں انہیں بھی آصف علی زرداری کے درپر ہی آنا ہوگا۔یہ بات واضح ہے کہ ہم غنڈہ گردی سے کسی آئینی عمل کو ثبوتاژ نہیں ہونے دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز اوورسیز پاکستانیوں نے وزیر اعظم کی جانب سے انہیں جو چورن بیچا گیا تھا، اس پر ان کی ٹھیک ٹھاک دھلائی کی ہے اور خود ان کے اپنے عہدیداروں نے سخت احتجاج کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی فرما رہے تھے کہ ہماری معیشت بہتر ہوئی ہے اور وہ اس پر چیلنج کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین سال کے دوران 7 ایف بی آر کے چیئرمین، 5 سیکٹری خزانہ اور 4 خزانہ کے وزیر تبدیل ہوئے ہوں تو اس ملک کی معیشت کا علم سب کو ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جب بھی آئی جی پنجاب لگایا دعوہ کیا کہ اب پنجاب کے امن و امان کے حالات بہتر ہوں گے کیونکہ انہوں نے قابل آئی جی لگایا ہے اور پھر چند ماہ بعد یہ آئی جی خراب اور دوسرا نیا آئی جی پنجاب اچھا لگانے کا دعوہ کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیر خزانہ نے اس عہدے پر آنے سے چند روز قبل یہ بیان دیا تھا کہ اس ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے اور اس کو درست کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے اور اب عمران نیازی معیشت کی بہتری کے دعوے کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر معیشت کی بہتری ہوئی ہے تو اس کا اندازہ گلی کوچوں میں جاکر عوام سے معلوم کریں کہ ہر شخص اس بات کا رونا رو رہا ہے کہ اس کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ سعید غنی نے کہاکہ عام آدمی کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس ملک کی تاریخی سطح پر پہنچ چکا ہے، ملک کی امپورٹ میں اضافہ جبکہ ایکسپورٹ میں کمی عمران نیازی کے دعوے کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی نے کنسٹریکشن اور انڈسٹریز کے اربوں اور کروڑ پتی کو این آر او دے کر انہیں کھلی چھوٹ دی کہ وہ اپنا پیسہ چاہے وہ کسی طریقے سے بھی کمایا ہو وہ لگائیں جبکہ اس ملک کے عام آدمی، محنت کش، مزدور اور کسانوں کے لئے کوئی اسکیم نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی بڑی آبادی زراعت سے وابستہ ہے، جو زرعی معیشت کا ستون ہے، آج ہمارا کسان کھاد نہ ملنے پر پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی فصلیں تباہ ہورہی ہیں اور ڈر ہے کہ آنے والوں وقتوں میں کھاد کی عدم دستیابی کے باعث ملک میں گندم کا بحران پیدا نہ ہوجائے۔ سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز کے چوہدری پرویز کے انٹرویو کے بعد سب کے تعزیہ ٹھنڈے ہوگئے ہوں گے، انہوں نے اس بات کو مانا کہ آصف علی زرداری کے پاس 172 سے زائد ارکان قومی اسمبلی موجود ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اپوزیشن کے بعد اس وقت بھی 172 سے زائد نمبرز ہیں اور اگر اتحادی جماعتیں نہیں بھی آتی ہیں تو یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اب عمران کا جانا یقینی ہوگیا ہے اور اب اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے اور عدد اور نمبر سے عمران کو کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جی ڈی اے، بلوچستان عوامی پارٹی ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) سمیت اتحادی جماعتوں کے در در کی ٹھوکرے کھا رہا ہے، ان کے پیر پکڑ رہا ہے، ان کے آگے رو رہا ہے لیکن اب وہ ان کی حمایت نہیں کریں گے۔ سعید غنی نے کہا کہ اگر شیخ رشید اور دفواد چوہدری اور موجودہ کابینہ کو بھی اپوزیشن یہ یقین دہا نی کرادے کہ ان کی وزارتیں رہیں گی، تو یہ سب بھی عمران کے خلاف ووٹ دینے کو تیار ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شغلی فراز نے گذشتہ روز آصف علی زرداری کے ارکان قومی اسمبلی کو خط لکھے جانے پر جو ڈرامہ شروع کیا ہے، ان کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ آئین کی آرٹیکل 63-A کے تحت عدم اعتماد کے موقع پر یہ خط لکھنا ہے اور اب پی ٹی آئی کو یہ خط اپنے ارکان کو نہیں لکھنا چاہیے اور اگر لکھیں گے تو پھر ان کا ایک یوٹرن ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اب عمران نیازی جو اپنے آپ کو اردو کا بڑا ارستو سمجھتا ہے اور بلاول بھٹو پر اردو پر تنقید کرتا ہے، اس کی اب کانپیں ٹانگ گئی ہیں اور اب وہ کہتا ہے کہ شہباز شریف ٹوکرے کا پھل لے کر گیا ہے اور ان کے چول وزیر بھی اتنے پریشان ہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے ہاتھ کو قانون میں لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی نے کہا ہے کہ جو زنجیر ان کو پلی ہوئی تھی وہ کھل گئی ہے تو ہم نے زنجیر پڑی ہوئی دیکھی ہے اور اگر خان صاحب کی پلی ہوئی زنجیر کھل گئی ہے تو پھر اسلام آباد میں تمام اسپتالوں میں اس کی ویکسین لازمی ہونی چاہیے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کی اس وقت کو کیفیت ہوگئی ہے وہ گھبراہٹ، بوکھلاہٹ، سٹپٹانے اور پاگل پن سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد ایک آئینی پروسیس ہے اور اگر کوئی جماعت جو حکومت میں بھی ہو اور وہ اس آئینی پروسیسی کی راہ میں غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر 10 لاکھ لوگوں کو لاکر ارکان قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے یا انہیں دھمکانے کے لئے اقدامات کرے تو پھر اپوزیشن جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ جنہوں نے یہ عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی ہے تو معزز ارکان کو اپنا حق استعمال کرنے کے لئے اقدامات کرے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس روز کوئی مجمعہ نہیں لگاتی ہے تو پھر اپوزیشن جماعتوں کی اعلیٰ قیادت فیصلہ کرے گی کہ ان کی جانب سے کیا کرنا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہم غنڈہ گردی سے کسی آئینی عمل کو ثبوتاژ نہیں ہونے دیں گے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی ملاقاتوں کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے تمام مطالبات جنرلائیز ہیں اور اس پر ہم سب کا اتفاق ہے۔ انہوں نے کوئی گورنر شپ یا وزارت نہیں مانگی ہیں اور جو مطالبات انہوں نے تحریری طور پر دئیے ہیں اس پر بھی اتفاق ہے البتہ اس کی تحریر میں درستگی درکار تھی اور وہ بھی ہم جلد کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جماعتوں نے صوبہ سندھ اور ملک کے مفاد میں لانگ ٹرم ورکنگ ریلیشن شپ پر بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت وزیر اعظم کی زبان نہیں بلکہ ان کا دماغ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے کیو نکہ نہ تو ان کا جغرافیہ درست ہے، نہ اردو اور نہ ہی ان کی ذہنی حالت درست ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو شخص جو اس ملک کا وزیر اعظم ہو اور وہ خود آئین اور قانون کی پاسداری نہ کرے تو اس کو اس ملک کا رکھوالا کیسے رکھا جاسکتا ہے۔ عمران خان کو آصف علی زرداری کی جانب سے کسی قسم کی ریلیف دینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پہلے عمران نیازی کو سابق وزیر اعظم ہونے دیں اور انہیں اپوزیشن بن کر رگڑا کھانے دیں اس کے بعد آنا تو سب کو آصف علی زرداری کے در پر ہی ہے اور وہ بھی آئے گا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان کے قیام کو یقینی بنائے اور ہر شہری کو آزادی سے نقل و حمل کو یقینی بنائے، لیکن اگر خود حکومت یہ کہے کہ عام شہری تو درکنار ایک رکن قومی اسمبلی کو وہ اسمبلی میں جانے نہیں دیں گے اور اگر وہ اسمبلی میں جاکر عمران کے خلاف ووٹ دے تو اس کو باہر نہیں نکلنے دیں گے، ان کے گھروں اور محلوں میں ان پر حملے کریں گے اور ان پر قدغن لگائی جارہی ہو تو ایک شہری اور سیاسی کارکن کے طور پر ہمیں اس غیر آئینی عمل کرنے سے حکومت کو روکنا ہوگا۔