کراچی(اسٹاف رپورٹر) کراچی کی حالیہ تعمیر و ترقی میں سب سے اہم و فعال کردار ادا کرنے والا ادارہ ترقیات کراچی اس وقت شدید مالی اور انتظامی بحران کے ساتھ ساتھ بدترین کرپشن کا شکار ہے۔ گریڈ 19 کے نیب زدہ محمد علی شاہ کی ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے تعیناتی کے بعد غیر محسوس طریقہ سے تمام اہم حساس اور منافع بخش عہدوں پر نیب زدہ افسران کو تعینات کیا جاچکا ہے ادارے کے ایماندار اور کام میں مضبوط گرفت کے حامل افسران کھڈے لین لگادیئے گئے۔لاڈلے افسران و ملازمین کو مشکوک تعلیمی اسناد کے باوجود متنازعہ ڈی پی سی اور بغیر ڈی پی سی کے ترقیاں ریوڑیوں کی طرح بانٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کے ڈی اے ذرائع کے مطابق سیکریٹری کے ڈی اے شمس الحق صدیقی سسٹم کے لاڈلے افسر کے طور پربیک وقت تین عہدے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔
جس میں ڈائریکٹر فنانس اور ڈائریکٹر ایمپلیمینٹیشن شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق ادارہ ترقیات کی اہم پوسٹوں پر نیب زدہ افسران کی تعیناتیوں نے عوامی اور سماجی حلقوں میں زیربحث بنا دیا کئی اہم اور زرائع آمدن رکھنے والی عہدوں کو نیب زدہ افسران کے سپرد کر دیا گیا۔ڈائریکٹر اسٹیٹ اینڈ انفورسمنٹ جمیل بلوچ تعنیات ماضی میں نیب زدہ افسر جمیل بلوچ کئی الزامات کی زد میں رہ چکے ہیں اسطرح شہر کراچی کا کمرشل برانچ متنازعہ افسر کامران کے حوالے کردیا گیا ہے، ماضی میں محمد کامران سابق ڈی جی ناصر عباس کے ساتھ نیب یاترا کر چکے ہیں اور اب بھی نیب کیسز کی فہرست میں موجود ہیں اسی طرح پورے کراچی کے صنعتی پلاٹوں کی لگام قاسم عرف لمبا کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے جو نیب ریفرنیس میں موجود ہیں ادھر پی ڈی لائنزایریا محمد عبید بھی نیب زدہ افسر ہیں اور ماضی میں نیب یاترا کا سفر کر چکے ہیں جنہیں پورے لائنزایریا پروجیکٹ کا پی ڈی لگا دیا گیا ہے ایک اطلاع کے مطابق نیب ریفرنیس میں شامل افسران کو بہت ہی خاموشی کے ساتھ گریڈ 19 میں ترقی دینے کی کوشیش تیز کر دی گئی ہیں جن میں شامل ڈائریکٹر اسٹیٹ جمیل احمد بلوچ اور قاسم عرف لمبا کو ڈی جی محمد علی شاہ اور سیکرٹری کے ڈی اے شمس صدیقی کی خصوصی ہدایت پر گریڈ انیس پرترقی کے لیئے سمری صوبائی محکمہ بلدیات کو روآنہ کر دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق موجودہ ڈائریکٹر لینڈ خالد ظفر ہاشمی بھی نیب ریفرنس میں شامل افسران کی لسٹ میں موجود ہیں سپریم کورٹ کی کھلی خلاف ورزی کے ساتھ نیب زدہ افسران سسٹم کو خوش رکھنے میں مصروف دیکھائی دیتے ہیں ادھر ٹیکنکل پوسٹوں پر کی جانے والی ڈی پی سی میں بھی لین دین کی افواہیں گردش کر رہی ہیں کسی بھی ڈپلومہ ہولڈر کو پرموشن دینے سے پہلے اسکی سند کی اعلی ٹینکیل بورڈ سے تصدیق نہیں کرائی گئی ـ اطلاعات کے مطابق ترقی حاصل کرنے والوں میں آدھے سے زیادہ ڈپلومہ ہولڈر کبھی کسی ٹیکنکل بورڈ کالج ہی نہیں گئے کے ڈی اے اسٹاف نے ٹیکنکل پوسٹوں پر ہونے والے ڈی پی سی کو متنازعہ قرار دے دیا ہے جن میں آدھے سے زیادہ ڈپلومہ کی اسناد مشکوک بتائی جاتی ہیں۔جسے عدالت میں چیلنج کرنے کی تیاری کی جارہی ہیں ـ