اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی ) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسٹیبلمشنٹ نے مجھے سیاستدانوں کی کرپشن کے بارے میں بتایا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کو ان کی کرپشن کا پتا تھا، انہوں نے ان کو اقتدارمیں آنے کی کیسے اجازت دے دی۔ قرضے نہیں صاف شفاف الیکشن سے سیاسی استحکام آئے گا، ابھی بھی وقت ہے بند دروازوں کے پیچھے کیے گئے فیصلوں پر نیوٹرلز نظرثانی کریں۔ آزادی اظہاررائے کے حوالے سے تقریب خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین کا کہنا تھا کہ وہ معاشرے ترقی کر گئے جہاں پر آزادی ہے، ریاست مدینہ میں تمام شہری قانون کی نظر میں برابرتھے، جب ایچی سن کالج سے نکلا تو مجھے تاریخ اور اسلام کا زیادہ آئیڈیا نہیں تھا، انسان جب تک ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوتا تب تک بڑے کام نہیں کر سکتا، غلامی ایک لعنت ہے اس سےانسان احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ مجھے آزاد میڈیا سے کوئی خوف نہیں، آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کسی کی پگڑی نہ اچھالیں، نجم سیٹھی نے میرے خلاف الزام لگائے تو اسے عدالت لیکرگیا تھا، کرپٹ سیاست دانوں کو آزاد میڈیا سے خطرہ ہوتا ہے، نواز شریف نے نجم سیٹھی کو کرپشن پر آواز اٹھانے پر مار پڑوائی، مجھے کبھی آزاد میڈیا سے خوف نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ 1990ئ میں دونوں پارٹیوں کو کرپشن کی وجہ سے نکالا گیا تھا، پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کیسز بنائے تھے، 1996ئ میں نوازشریف اور بینظیر بھٹو ملک سے پیسہ باہر لیکر گئی، نوازشریف نے اقتدارمیں رہ کر 17 فیکٹریاں بنالی تھیں، مشرف کی سپورٹ کرتے رہے کرپشن کو ختم کرنے آیا ہے، مشرف نے بعد میں انہی کواین آراودے دیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ سوچتا تھا اسٹیبلشمنٹ ان کی چوری کو دیکھ کر ری ایکٹ کرینگے، کئی دفعہ مجھے آئی ایس آئی نے بھی ان کی کرپشن کے بارے میں بتایا، بدقسمتی سے نیب ہمارے کنٹرول میں نہیں تھی، بعد میں پتا چلا ان کے اوپرکسی کی شفقت کا ہاتھ تھا، کسی کو نیب میں لیکر جاتے تو یہ لوگ مجھے گالیاں نکالتے تھے، اگر میرے ہاتھ میں نیب ہوتی تو ان سے کرپشن کا 15 ارب ڈالر نکلوا لیتے اور جیلوں میں ڈالتے۔ اسٹیبلشمنٹ سے سوال پوچھتا ہوں، آپ نے ان لوگوں کوہمارے ملک پر کیسے مسلط ہونے دیا، آپ لوگ تو خود ان کی چوری بارے ہمیں بتاتے تھے، مولانا رومی کا قول ہے جب قوم اچھے اوربرے کی تمیزختم کردے ختم ہوجاتی ہے، جوملک لوٹتے ہیں ان پرپھول پھینکے جاتے ہیں، اسی لیے مدینہ کی ریاست میں امر بالمعروف پر چلنے کا حکم دیا گیا تھا۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا رہا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ ملک کی فکر ہو گی اور وہ ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ وہ چوری دیکھ کر اس پر کارروائی کریں گے۔ جب ہم اقتدار میں آئے تو بدقسمتی سے نیب ہمارے کنٹرول میں نہیں تھی اور سمجھ نہیں آتی تھی جب کیسز میچور ہو چکے ہیں تو یہ افراد پکڑے کیوں نہیں جا رہے، بعد میں پتا چلا کہ کسی کا شفقت کا ہاتھ تھا، کبھی ایکسیلریٹر دبا دیتے تھے، کبھی واپس آ جاتا تھا۔ گالیاں ہمیں پڑ رہی ہوتی تھیں، اگر میرے ہاتھ میں نیب ہوتی تو 15، 20 لوگوں سے اربوں نکلوا لیتے۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس سب سے زیادہ طاقت ہے، آپ جو مرضی کہیں کہ آپ نیوٹرل ہیں، لیکن تاریخ لکھی جا رہی ہے پاکستان کی عوام اور لوگ آپ کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ اب اس ملک میں لوگوں کو مختلف طریقوں سے نفسیاتی طور پر دباو¿ کے ذریعے بھیڑ بکریوں کی طرح اس حکومت کو تسلیم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔