ٹنڈوجام (بیورورپورٹ) ملک کے زرعی ماہرین اور ایف اے او کے رھنماؤں نے ملک میں زرعی شعبے میں زہریلی ادویات کے بے دریغ استعمال سے حاملہ خواتین اور شیر خوار بچوں پر منفی اثرات اور بچوں کی مشقت پر گھری تشویش کا اظھار کیا ہے، کل سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کی زیرمیزبانی اور فوڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے زیر اھتمام "بصری اوزار کے رہنما خطوط پر توثیق ورکشاپ” کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائیس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا فصلوں میں زہریلی ادویات کے استعمال کے منفی اثرات زرعی لیبر فورس کے طور پر کام کرنے والی خواتین اور بچوں کی صحت کو شدید متاثر کیا ہے، حاملہ خواتین اور 2045 تک آنے والی ہماری نوجوان نسل پر کھرے اثرات چھوڑے گی، انہوں نے کہا زرعی ادویات کی مارکیٹنگ غیر زرعی اور کم تعلیم یافتہ کاروباری لوگ کر رہے ہیں، جو زہریلی ادویات کے ناقص تجاویز سے زراعت، ماحولیات، فطرت اور جانداروں کیلئے خطرات پیدا کر رہے ہیں، اس لئے جس طرح میڈیکل ادویات کیلئے بی فارمیسی اور تعمیرات کے شعبے کیلئے پاکستان انجنئرنگ کائونسل کی رجسٹریشن یا رکنیت لازمی ہے، اس طرح زرعی ادویات کے کاروبار کیلئے زرعی گریجوئیٹ کی ڈگری لازمی قرار دینی چاھئے، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائیزیشن (ایف اے او) کے ایف ایم ایم کے نیشنل کوآرڈینیٹر شکیل خان نے اپنے خطاب میں کہا سندھ کے کسانوں کیلئے زہریلی ادویات کے استعمال، چائلڈ لیبر، خواتین اور بچوں پر زہریلی ادویات کے خطرات، احتیاطی تدابیر کیلئے سندھی زبان میں وزیوئل گائیڈ تیار کیا جارہا ہے، انہوں نے کہا دنیا میں 160 ملین بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کر رہے ہیں
جن میں 70 فیصد بچے زراعت شعبے سے منسلک ہیں، اس لئے پیسٹسائیڈ سے متاثرہ بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے، انہوں نے کہا 1990 میں ایف اے او نے چائلڈ لیبر، زرعی زہریلی ادویات کے بچوں پر اثرات کی نشاندھی کی، سندھ زرعی یونیورسٹی کے سب کئمپس عمرکوٹ کے پرووائیس چانسلر ڈاکٹر جان محمد مری نے کہا بے دریغ پیسٹیسائیڈ کے استعمال کا بھی موسمی تبدیلیوں پر بڑا اثر ہے، تمام اداروں کو اس سلسلے میں سخت اور ھنگامی اقدامات اٹھانے ہونگے، کراپ پراڈکشن فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر نے کہا پیسٹسائیڈ مٹی اور پانی پر بھی منفی اثرات چھوڑتے ہیں، اور اس کا نقصان حاملہ خواتین اور شیرخوار بچوں پر بھی ہوتا ہے، اور خاص طور پر زمینوں اور مارکیٹوں میں کام کرنے والے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کراپ پروٹیکشن فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر منظور علی ابڑو نے کہا سندھ میں 400 کے قریب کمپنیاں، 200 کے قریب مختلف زہریات کا بلا خوف اور ادارتی تصدیق کے بغیر کاروبار کر رہے ہیں، جوکہ فصلوں، فطرت اور کسانوں کا مالی نقصان کر رہے ہیں، سوشل سانسز فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر اعجاز علی کھوھارو نے کہا زراعت میں انٹیگریٹیڈ پیسٹ مینیجمینٹ کو نظرانداز کیا گیا ہے، زرعی زہریات کا امپورٹ بل 20 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے، پڑوسی ملک نامیاتی محلول تیار کرکے فصل، فطرت اور سرمایہ بچا رہے ہیں، جبکہ فارمر اسکول کو بحال کرنے کہ ضرورت ہے، ڈئریکٹر یونیورسٹی ایڈوانسمینٹ اینڈ فنانشل اسسٹنس ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر نے کہا زہریلی ادویات کی وجہ سے فوڈ چین سسٹم متاثر ہوگیا ہے، اورسندھ میں صحت کے مسائل خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں، اس لئے سندھ اور وفاقی زرعی، ماحولیاتی، تدریسی اور خانگی اداروں کے اسٹیک ھولڈرس پر مشتمل ایک کوارڈینیشن کامیٹی تشکیل دی جائے اور قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے، جبکہ سندھ ٹیکسٹ بوک بورڈ پرائمیری اور سیکنڈری سطح پر فوڈ سیکیورٹی اور چائلڈ لیبر اور چائلڈ ورک کے حوالے سے نصاب لازمی کرے، ڈئریکٹر ایگریکلچر انفارمیشن مصطفیٰ ناگراج نے کہا کہ محکمہ زرعی توسیع سندھ تمام زرعی سرکاری اور خانگی اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا ہے، اس موقع پر گرین کلائیمیٹ فنڈ کے صوبائی کوآرڈینیٹرڈاکٹر اشفاق احمد ناھیوں اور دیگر نے بھی خطاب کیا، جبکہ تقریب کے دوران ڈبلیو ڈبلیو ایف، انٹرنیشنل لیبر آرگنائیزیشن، نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر، ایگریکلچر ریسرچ سندھ، خانگی سیکٹر، کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ اور دیگر اداروں کے مندوبین، استاذہ طلباء کی بڑی تعداد شریک ہوئی، اس موقع پر گروپ بحث مباحثے کی نشست بھی ہوئی، تقریب میں ڈین ڈاکٹر سید غیاث الدین شاھ راشدی، رجسٹرار غلام محی الدین قریشی، حسین بخش ملاح، ڈاکٹر ظھور سومرو، منظور احمد کھوڑو، ڈاکٹر شوکت ابراھیم ابڑو بھی شریک ہوئے۔