پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک یہ بات تسلسل کے ساتھ کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ زمینی حقائق پر اگر یہ دعوی پرکھا جائے تو اس میں کوئی صداقت نہیں دکھائی دیتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دعوی کر کے پاکستان کی زرعی حیثیت پر تہمت لگائی جا رہی ہے۔ تہمت کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ گندم سے لیکر دیگر غذائی اجناس تک پاکستان درآمد کرتا ہے، جس سے اس ملک کے زرعی ہونے کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں ماشاءاللہ ایک اور یوم آزادی منانے کا جشن شروع ہوگیا ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ ملک آج بھی زرعی خود کفالت حاصل نہیں کر سکا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا ملک ایسا ہوگا جو خود کو زرعی ملک بھی کہلاتا ہو لیکن گندم اور چینی جیسی بنیادی اجناس دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہو۔ پاکستان بھر میں زرعی یونیورسٹیوں کی بھی بھرمار ہے تاکہ اس تاثر کو زیادہ قوی دار بنایا جائے کہ یہ ملک زرعی ہے۔ لیکن شومئی قسمت کہ ان یونیورسٹیوں میں بھی زرعی تحقیق کم جبکہ عام تعلیم زیادہ پڑھائی جاتی رہی۔ زرعی تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو ہماری زراعت آگے بڑھی اور نہ ہی اس ملک میں پائے جانے والے فروٹ میں بہتری آسکی۔ اس سلسلے میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان کے پڑوس میں ہندوستان نے زرعی میدان میں بہت ترقی کی۔ زرعں تحقیقات نے اس کے پھل اور سبزی دونوں کو فائدہ پہنچایا جبکہ پاکستان میں پہلے تو زرعی تحقیق پر ہی توجہ نہیں دی گئی اور جو رہی سہی کسر باقی تھی تووہ زرعی زمینوں پر رہائشی سکیموں کی بھر مار کر کے پوری کر دی گئی۔ جو رہی سہی کسر باقی بچی تھی وہ ہائیبریڈ تخم نے پوری کر دی۔اس قدر عدم توجہی کے بعد خیبر پختونخوا کے ارباب اختیار کو یہ خیال آگیا کہ کم ازکم اس صوبے میں اگر زرعی ترقی کے امکانات کم ہیں تو پھر پھلوں کو ترقی دینے کے لئے کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اچھی خبر یہ ہے کہ صوبائی حکومت لگ بھگ تین ارب روپے کی لاگت سے پھلوں کو ترقی دینے کا دو سالہ پراجیکٹ شروع کر رہی ہے۔خیبر پختونخواحکومت نے صوبے میں باغات کی تعداد میں اضافہ اور کسانوں کی استعداد کار بڑھانے کے لئے تین ارب روپے کے منصوبے پر کام فوری شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں وفاقی حکومت کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی جاۓ گی۔ اس پروگرام کی اچھی بات یہ ہے کہ ایک تو وہ اجناس صوبے میں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کی عالمی منڈی میں نہ صرف مانگ ہے بلکہ اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔تو دوسری طرف اس پروگرام پر عمل درآمد سے کاشتکاروں کو ان کی فصل کا زیادہ بہتر معاوضہ ملے گا۔ مجوزہ پروگرام کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ کے ذریعہ صوبہ میں کلائمٹ ریز لئنس پروگرام کے تحت صوبہ کو دوارب نانوے کروڑ روپے کی رقم فراہم کی جاۓ گی جس میں سے 1552۔ ارب روپے رواں مالی سال کے دوران دی جائے گی۔ جس کے ذریعہ صوبہ میں زیتون اور زعفران کی پیداوار کے ساتھ دیگر پھلوں کی پیداوار کے لئے بھی باغات کے قیام اور دیکھ بھال کو یقینی بنایا جاۓ گا۔ صرف زعفران اور زیتون کے باغات کی مد میں کم وبیش دس ہزار مقامی کسان مستفید ہوسکیں گے۔ پراجیکٹ کے تحت صوبہ بھر کے اضلاع میں باغات قیام ، ویلیوایڈیشن کے لئے سہولیات فراہمی ، زیتون اور اس کے تیل کی پیداوار میں اضافہ ،کسانوں کی استعداد کار بڑھانے اور ماحولیاتی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جاۓ گا حکومت کی طرف سے کسانوں کو ماڈل باغات قائم کے دیئے جائیں گے ان میں سیب ،آڑوں ، مالٹا، آم ، بیچی ، چیری اور دیگر پھلوں کے باغات شامل ہیں صوبہ بھر میں 15700۔ا یکڑ رقبہ پر باغات لگاۓ جائیں گے اسی طرح 15700۔ ایکڑ رقبہ پر باغات کی دیکھ بھال یقینی بنائی جائے گی۔ 1930۔ ایکڑ رقبہ پر جدید ترین ایریگیشن سسٹم بنایا جائے گا جبکہ 615۔ ایکڑ رقبہ پر ایریگیشن سسٹم کوشمسی توانائی پر منقل کیا جائے گا۔یہ منصوبہ دوسال کے دوران مکمل کیا جاۓ گا جس سے صوبہ میں ماحولیاتی تبدیلی کی لہر پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ زیتون ، زعفران اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ کو بھی یقینی بنایا جاۓ گا۔اس منصوبے کو صوبے میں زرعی ترقی کے لئے بارش کا پہلا قطرہ گردانا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ ترقی کا سفر ہے جس میں آنے والے دنوں میں مستقبل کے حکمرانوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا تو یہ سفر جلتا رہے گا۔ اس لئے بارش کے اس پہلے قطرے کی اہمیت کو پرکھا جائے اور اسے آگے بڑھانے کا عزم کیا جائے۔