کراچی( رپورٹ۔راجہ محمد فیاض۔)ضلع شیخوپورہ کی رہائشی سکینہ بی بی کو دہائیوں سے اپنے لاپتہ بھائی کی تلاش تھی جو تقسیم ہند کے دوران انڈین شہر لدھیانہ میں رہ گئے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق 67 سالہ سکینہ بی بی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پبلش ہوئی تو لدھیانہ کے گاؤں جاسوول کے سرپنچ جگتر سنگھ کے پاس جا پہنچی جنہوں نے تصدیق کی کہ سکینہ بی بی کے بھائی گرمیل سنگھ اسی گاؤں میں رہتے ہیں۔سکینہ بی بی نے نہ کبھی اپنے بھائی کو دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے ملی ہیں لیکن ان کا یہ انتظار چند ہی دنوں میں ختم ہونے والا ہے۔ سالوں سے بچھڑے بہن بھائی پہلی مرتبہ ایک دوسرے سے مل سکیں گے لیکن وہ بھی آن لائن کال کے ذریعے۔پاکستانی یو ٹیوبر ناصر ڈھلوں نے سکینہ بی بی کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے اپنے گم شدہ بھائی سے ملنے کی اپیل کی تھی۔ سکینہ بی بی نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ ان کے والدین نے بھائی کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ’میرے بھائی نے سنہ 1961 میں ہمیں ایک خط لکھا تھا جس کے ساتھ انہوں نے اپنی تصویر بھی بھیجی تھی۔ اس وقت وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔‘
خط میں گرمیل سنگھ نے بتایا تھا کہ جو خاندان ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے وہ بالکل اپنے بیٹے کی طرح ہی ان کا خیال رکھتے ہیں۔ ’لیکن ہم یہ نہیں معلوم کر سکے کہ یہ خط کس پتے سے آیا تھا۔ میری والدہ بیٹے کو دیکھنے کے غم میں ہی چل بسی۔ جب میرے والدین انتقال کر گئے تو میں نے بھائی کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور میرے داماد نے بھی۔ میں نے ہر جگہ پر بھائی سے ملنے کی دعا کی، یہاں تک کہ ننکانہ صاحب پر بھی۔‘
تقسیم ہند کے دوران سکینہ بی بی کے بھائی گرمیل سنگھ گریوال انڈیا میں ہی رہ گئے تھے اور انہیں ایک سکھ خاندان نے پال پوس کر بڑا کیا۔ ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے ناصر ڈھلوں نے بتایا کہ گرمیل سنگھ تقسیم ہند سے پہلے لدھیانہ کے گاؤں نور پور میں پیدا ہوئے تھے جبکہ ان کی بہن سکینہ بی بی پاکستان کے ضلع شیخوپورہ کے گاؤں گرداس میں سال 1955 میں پیدا ہوئی تھیں۔
سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال میں گرمیل اور ان کی والدہ اپنے آبائی گاؤں میں رہ گئے تھے۔ گرمیل کے والد نے حکام کو خط لکھ کر درخواست کی کہ ان کے اہل خانہ کو پاکستان بھجوا جائے۔ حکام گرمیل کی والدہ کو تو پاکستان منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن انہیں لدھیانہ میں ہی چھوڑ دیا۔جس وقت حکام پر مشتمل ٹیم پانچ سالہ گرمیل اور والدہ کو لینے گھر آئی تو اس وقت وہ باہر کہیں کھیلنے گئے ہوئے تھے اور ٹیم انتظار کیے بغیر ہی والدہ کو لے گئی۔ سکینہ بی بی کے مطابق ان کی والدہ بیٹے کی جدائی کا غم نہ سہہ سکیں اور ابھی سکینہ دو سال کی تھیں کہ والدہ چل بسیں۔سکینہ بی بی جب تیسری جماعت میں پڑھ رہی تھیں تو ان کے والد ولی محمد انتقال کر گئے۔ ناصر ڈھلیوں نے بتایا کہ جیسے ہی انہوں نے ویڈیو اور تصویریں سوشل میڈیا پر شائع کیں تو جاسووال گاؤں کے سرپنچ جگتر سنگھ نے ان سے رابطہ کیا۔جگتر سنگھ نے بتایا کہ انہوں نے گرمیل سنگھ کو ویڈیو دکھانے کے لیے بلوایا تھا۔ ’گرمیل سنگھ سمجھے کہ ان کی بہن ویڈیو کال پر ہیں تو انہوں نے آنسوؤں کے ساتھ خرگوشی کرتے ہوئے کہا ’میں تیرا ویر ہی آں۔‘ گاؤں کے سرپنچ نے بتایا کہ گرمیل اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔گرمیل سنگھ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے گھر والوں کو یاد کرتا تھا لیکن انہیں تلاش نہیں کر سکا۔ میں نے سنا تھا کہ میری والدہ میرا انتظار کرتے کرتے فوت ہو گئیں۔اب میری بہن نے مجھے ڈھونڈھ لیا ہے تو میں کل ہی اس سے ملنے جا سکتا ہوں۔ میرے پاس پاسپورٹ نہیں ہے لیکن بنوا لوں گا۔‘ گرمیل سنگھ نے مزید کہا کہ وہ اپنی بہن کے لیے گاؤں میں بنے ہوئے خاص بسکٹ لے کر جانا چاہتا ہیں۔۔۔
۔
بھاویں مونہوں نہ کہیے پر وچوں وچی –
سَن 1947 کی تقسیم ہند کے بعد جب ہندوستان میں پہلا ہند و پاک مشاعرہ ہوا، تو استاد دامن نے یہ پنجابی غزل اس مشاعرے میں پڑھی تھی۔
بھاویں مونہوں نہ کہیے پر وچوں وچی
کھوئے تسی وی او، کھوئے اسی وی آں
ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تسی وی او ،ہوئے اسی وی آں
کجھ امید اے زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
جیوندی جاں ای، موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او، ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں’
(استاد دامن)