کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان پر طالبان کے قبضے کے ایک برس بعد بھی خطرے سے دو چار ہزاروں افغانیوں کے انخلا کی برلن کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔ طالبان اس عمل کو روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔طالبان ان بسوں کو بھی روک رہے ہیں، جس میں افغان شہریوں کو سرحد پار ہمسایہ ملک پاکستان لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کے برعکس وہ انہیں واپس جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق جرمن حکومت کی کوشش رہی ہے کہ سابق افغان کارکنوں اور ایسے بہت سے دیگر افراد کو ظلم و ستم کے خطرے سے بچانے کے لیے ان کا انخلا مکمل کر لیا جائے، تاہم مبینہ طور پر طالبان ان کوششوں کو روکتے رہے ہیں۔
افغانستان میں جرمن اداروں کے ہزاروں سابق مقامی عملے، سیاسی کارکنوں اور فنکاروں کے انخلا کے لیے برلن کا جو ہنگامی منصوبہ ہے، وہ طالبان کے کنٹرول کے باعث تعطل کا شکار ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جولائی سے ستمبر کے وسط کے درمیان حکومت کا ہدف 7,700 افراد کو نکالنا تھا۔ تاہم رپورٹ کے مطابق جولائی میں صرف 1,044 افغانوں کو ہی جرمنی لایا جا سکا اور اب یہ ہدف حقیقت پسندانہ نہیں لگتا ہے۔جرمن دفتر خارجہ نے بتایا کہ افغانستان سے انخلا کی رفتار کافی سست ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان صرف پاسپورٹ رکھنے والے شہریوں کو ہی ملک چھوڑنے کی اجازت دے رہے تھے، تاہم شاید ہی کوئی نیا پاسپورٹ جاری کیا جا رہا ہو۔طالبان ان بسوں کو بھی روک رہے ہیں، جس میں افغان شہریوں کو سرحد پار ہمسایہ ملک پاکستان لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کے برعکس وہ انہیں واپس جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔