واشنگٹن ( نمائندہ خصوصی )ناروے کے سابق وزیر اعظم کےجل مگنے بونڈی وک نے مسئلہ کشمیر کے حل کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں ثالثی کا کردار بھی ادا کریں گے۔وہ سفارتخانہ پاکستان واشنگٹن ڈی سی کے زیر اہتمام تیسرے ”یوم استحصال کشمیر “ کے موقع پر منعقدہ ویبینار سے خطاب کر رہے تھے۔ویبینار میں سفیر پاکستان مسعود خان سمیت ، سینیٹر مشاہد حسین سید، ہاوس آف کامنز کے ڈپٹی لیڈر برطانیہ کے ایم پی افضل خان، شمیم شال، لارڈ واجد خان اور کشمیری امریکن رضوان قادر بھی شامل تھے۔ پانچ اگست 2019 میں بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر میں یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے ذریعے علاقے کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے حوالے سے اقدامات کیے۔اپنے خطاب کے دوران ناروے کے سابق وزیر اعظم کی جل مگنے بونڈی وک نے جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے 2019 میں اپنی ثالثی کی کوششوں کا ذکر کیا۔ناروے کے سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے انہوں نے بھارت سمیت سری نگر، مظفر آباد اور اسلام آباد کا دورہ بھی کیا۔جل مگنے بونڈی وک وہ واحد عالمی سطح کے سیاستدان ہیں جنھوں نے سری نگر کا یہ دورہ کیا، انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سفارتی کوششوں سے ایسے فارمولے کو تلاش کیا جانا چاہئے جو سب کےلئے قابل قبول ہوناروے کے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنے کےلئے اپیل بھی بھیجیں گے۔ انہوں نے کہاکہ وقت آگیا ہے کہ ایسی سیاسی کوششیں شروع کی جائیں جو جنگ بندی اور امن کے لیے راہ ہموار کر سکیں، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کو اپنی ذمے داری کا احساس کرنا چاہئے۔۔
ناروے کے سابق وزیر اعظم نے بھارتی حکومت سے کشمیری رہنما محمد یاسین ملک کی رہائی کی اپیل بھی کی۔ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے سفیر مسعود خان نے کہا کہ 05 اگست 2019 کو ہونے والی پیش رفت کشمیریوں کی قسمت اور جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔سفیر پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت اپنے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات پر نظرثانی کرے اور انہیں واپس لے۔ انہوںنے کہاکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا احترام کیا جائے اور کثیر الجہتی سفارت کاری اور سہ فریقی مذاکرات کےلئے جگہ پیدا کی جائے۔سفیر پاکستان مسعود خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر فوری حل نہ ہوا تو یہ تنازعہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہوگا ۔سینیٹر مشاہد حسین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 5 اگست 2019 سے اب تک 15000 سیاسی قیدی بھارت کی قید میں ہیں جبکہ معیشت کو 5.3 ارب ڈالر کے نقصان ہوا اور پانچ لاکھ ملازمتیں ختم ہوئیں۔سینیٹر مشاہد نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 40 لاکھ بیرونی افراد کو ڈومیسائل دیا گیا ہے اور ووٹر لسٹ میں 12 لاکھ افراد کا نام شامل کیا گیا ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہاکہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے آبادیاتی ماہیت کو تبدیل کرنے اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے سازشی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔مشاہد حسین نے کہا کہ مودی حکومت کا نظریاتی ایجنڈا مسلمانوں کو اندرون ملک اور پاکستان کو بیرون ملک پروپیگنڈے کے ذریعے بدنام کرنے کا ہے جو کہ علاقائی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔برطانیہ کے ہاوس آف کامنز میں ڈپٹی لیڈر افضل خان نے اپنے کلمات میں کہا کہ اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور نفرت انگیز تقریر ہندوستان میں معمول بن چکی ہے اور اسے حکومتی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔افضل خان نے بھارتی حکومت کی طرف سے سیاسی کارکنوں کو قید کرنے کے حالیہ اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسکی مذمت کی۔افضل خون نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد اور علاقے میں رائے شماری کرانے کی ضرورت پر زور دیا۔کشمیری رہنما شمیم شال اور کشمیری امریکن رہنما رضوان قادر نے بھی اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔سفیر پاکستان مسعود خان نے ویبینار میں شرکت کرنے پر شرکاءکاشکریہ ادا کیا۔اپنے اختتامی کلمات میں، سفیر پاکستان مسعود خان نے کہا کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور بھارت میں بھارتی سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ کمیونیکیشن انتہائی ضروری ہے تاکہ رائے عامہ کو سازگار بنایا جاسکے۔سفیر پاکستان نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ثالثی اور فوری بات چیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر بڑے ممالک پی فائیو میں اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔