کرونا وائرس جسم کے تقریباً تمام اعضا کو متاثر کرتا ہے، کچھ افراد میں یہ اثرات بہت کم اور کچھ میں شدید ہوتے ہیں، ماہرین نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے۔
امریکا کے ییل اسکول آف میڈیسن نے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی ردعمل کا جائزہ لیا، انہوں نے دیکھا کہ اس بیماری کو جلد شکست دینے والوں کے مقابلے میں زیادہ بیمار ہونے والے مریضوں کے مدافعتی ردعمل میں کیا مختلف ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے مریضوں کے خون کے خلیات کی جانچ پڑتال کی، انہوں نے ہر مریض سے خون کے خلیات کو وائرس کی پیشرفت کو 2 مختلف مراحل میں حاصل کیا۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ مدافعتی نظام کے 2 بنیادی پہلوؤں میں ربط کی کمی تھی۔
مدافعتی نظام کا ایک پہلو وائرل انفیکشن کے خلاف پہلے دفاعی میکنزم کا کام کرتا ہے، جو برق رفتار ہوتا ہے جبکہ دوسرا ایسا خاص مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جو مخصوص وائرس کو ہی ہدف بناتا ہے اور یہ زیادہ طاقتور دفاع فراہم کرتا ہے۔
ان دونوں میں ربط کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں ایسے مخصوص مدافعتی خلیات مونو سائٹس متحرک ہوتے ہیں جن کے دوسرے مرحلے کے مدافعتی ردعمل کے اینٹی جینز موجود ہوتے ہیں۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں مونو سائٹس میں ٹی سیلز کے اینٹی جینز زیادہ مؤثر نہیں ہوتے بلکہ پھر بھی دوسرے مرحلے میں مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوتا ہے۔
اس کے بہت زیادہ متحرک ہونے سے ورم پھیلنے کا عمل حرکت میں آتا ہے جو جسم کے دیگر ٹشوز کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ٹائپ 1 انٹر فیرون نامی پروٹین کی زیادہ مقدار متاثرہ خلیات سے خارج ہوتی ہے جس سے بھی مدافعتی ردعمل کو نقصان پہنچتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ مونو سائٹس اور ٹی سیلز کے تعلق کو ہدف بنائے جانے کی ضرورت ہے جس سے کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد کے علاج میں مدد مل سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر سائنسدان مدافعتی ردعمل کے پہلے یا دوسرے پہلو کو بدلنے کے قابل ہوجائیں تو اس سے مریضوں کی حالت بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔