واشنگٹن (نیٹ نیوز )امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاوس سے خصوصی خطاب کے دوران اعلان کیا ہے کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو افغانستان کے اندر ہونے والے ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔میڈیارپورٹسک ے مطابق صدر بائیڈن نے قوم کو بتایا کہ نائن الیون میں زندگی سے محروم ہونے والے معصوم امریکیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا اور الظواہری کی ہلاکت ثابت کرتی ہے کہ ہم اپنے عزم پر قائم ہیں اورایمن الظواہری کے ساتھ انصاف ہو گیا
ہے۔صدر نے کہا کہ الظواہری نیروبی سے لے کر افغانستان تک، امریکہ کے عوام، اس کے سفارتکاروں ، فوجیوں اور اس کے مفادات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں شامل رہے ہیں۔صدر بائیڈن نے تصدیق کی کہ انہوں نے گذشتہ ہفتے افغانستان کے اندر خصوصی ڈرون آپریشن کی منظوری دی تھی اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کسی عام شہری، بشمول الظواہری کے خاندان کے افراد کے کسی کی زندگی کو نقصان نہ پہنچے۔امریکہ کے صدر نے کہا کہ انہوں نے کاونٹر ٹیررازم فورس کے اس پلان پر کافی غور وخوض کے بعد اس کی منظوری دی اور اس کے لیے گانگریس کے اراکین کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔صدر بائیڈن نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کے وقت بھی میں نے امریکہ کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ہم افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔ صدر نے اس موقع پر امریکہ کی انٹیلی جنس کمیونیٹی اور انسداد دہشت گردی فورسز کی خدمات کو بھی سراہا۔صدر نے کہا کہ اہداف کو نپے تلے انداز میں نشانہ بنانے والے ڈرون حملوں سے ہم نے، الظواہری سے قبل، گزشتہ ماہ داعش کے ایک بڑے لیڈر کو بھی انجام تک پہنچایا ہے۔امریکہ کے صدر نے باور کرایا کہ دہشت گرد یہ جان لیں کہ وہ امریکہ کے لوگوں اور ا س کے مفادات کو نقصان پہنچائیں گے تو وہ کہیں بھی ہوں گے، جتنا بھی چھپ لیں،
ان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ اور ان کے بقول ہم وہ سب کریں گے جس سے امریکہ کے شہری ملک کے اندر اور دنیا بھر میں محفوظ رہ سکیں۔ادھر طالبان نے اس فضائی حملے کی مذمت کی ہے جس میں مبینہ طور پرالقاعدہ کے رہ نما ایمن الظواہری کی ہلاکت ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حملہ دارالحکومت کابل کے علاقے شیرپور میں ایک گھر پر ڈرون کے ذریعے کیا گیا۔افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان جاری کیا جس میں افغانستان کے اندر ڈرون حملے کی یہ کہہ کر مذمت کی ہے کہ وجہ کچھ بھی ہو، اس طرح کا حملہ ان کے الفاظ میں، بین الاقوامی قوانین اور دوحہ معاہدے کی صریحا خلاف ورزی ہے۔اس حملے کو افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور دوحہ معاہدے سے متصادم بھی قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن افغانستان میں امریکا کے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتا۔