لاہور( بیورو رپورٹ ) صوبائی وزیر داخلہ عطا اللہ تارڑ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کےلئے فل بنچ یا لارجر بنچ تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی سربراہ کے اختیارات کے حوالے سے معاملے کو ہمیشہ کے لئے حل ہوجا نا چاہیے ، سینیٹ انتخابات میں پریذائیڈنگ آفیسر 7ووٹ مسترد کرنے کی رولنگ دی جس کے بعد یوسف رضا گیلانی انتخاب ہار جاتے ہیں وہ کیس بھی آج تک زیر التواءہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاﺅن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ فواد چوہدری اور گل نامی شخص کے لہجوں میںدو ہفتوں سے تلخیاں تھیں ،دھمکیاں او ربڑھکیں ماری جارہی تھیں ،عمران خان بھی شدت جذبات میں وہ باتیں کر رہے تھے جو کسی پارٹی لیڈر کو زیب نہیں دیتیں ۔ ہم نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق حاصل کی ہے ، انصاف کا دہر امعیار نہیں ہو سکتا۔ پچیس اراکین کو اس لئے ڈی سیٹ کیا گیا کہ انہوںنے پارٹی کے فیصلے کے برعکس ووٹ دیا ،اور اس پر پارٹی کے سربراہ نے ایک ریفرنس بھیجا تھا ،جب ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو انہیں ڈی سیٹ کر کے ضمنی انتخابات کا حکم دیا گیا ۔ آج تک سوال پوچھ رہا ہوں کہ ان پچیس اراکین کو پارٹی کی جانب سے کب ہدایات دی گئی تھیں کہ پرویز الٰہی کو ووٹ دینا ہے ،اگر پارٹی کی ہدایات موجود تھیںتو پھر اس وقت بائیکاٹ کیوں کیا گیا ۔ اس وقت ووٹ نہ کاسٹ کر کے پارٹی کی ہدایات سے انحراف نہیں کیا ، جب ڈپٹی سپیکر نے پچھلے انتخاب کی گنتی بتائی تو بتایا کہ صفر ووٹ کاسٹ ہوا ، کسی نے اس پر سوال نہیں اٹھایا ۔انہوںنے کہا کہ یہ آئینی اور قانونی مسئلہ ہے اس کی تشریح ہونا بہت ضروری ہے ، جن ججز صاحبان نے پہلے فیصلے دئیے ہیں وہ ایک ذہن رکھتے ہیں تو بڑے ادب سے استدعا کرتے ہیں کہ اس اہم آئینی معاملے پر فل بنچ بیٹھے اور عدالتی روایات بھی یہی ہیں کہ جب اہم آئینی نوعیت کے معاملات ہوتے ہیں تو یالارجر یا فل بنچ بیٹھتا ہے ۔
انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اس معاملے کے اوپر سپریم کورٹ کا فل بنچ بیٹھے او اس کو سنے ،جو ججز پہلے فیصلہ دے چکے ہیں وہ اپنا مائنڈ بتا چکے ہیں کیونکہ وہ ایک معاملے کو سن چکے ہیں اورفیصلہ دے چکے ہیں ،از حد ضروری ہے کہ اس میں مزید ججز صاحبان بیٹھیںاور آئین کی تشریح کے لئے روایات کو دیکھتے ہوئے فل بنچ کااس کیس کو سننا ضروری ہے ۔ انہوںنے کہا کہ چا رماہ سے پنجاب میں آئینی بحران برپا کیا ہوا ہے ان سے سوال نہیںہونا چاہیے کہ آپ کس منہ سے عدالت گئے ہیں اورکیا استدعا لے کر گئے ہیں۔ماضی میں یہ بات ہو چکی ہے کہ پارٹی کے سربراہ کے پاس لا محدود اختیارا ت ہیں،ماضی کے کیسز اور حال ہی میں پچیس لوگوں کو ڈی سیٹ کیا گیاہے یہ تمام معاملات تقاضہ کرتے ہیں کہ فل بنچ کے علاوہ اس کو نہ سنا جائے ۔جب یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ میںانتخاب ہوتا ہے پریذائیڈنگ کی کرسی پر بیٹھ کر کہا گیا کہ میں یہ سات ووٹ مسترد کرتا ہوں اور اس کے بعد یوسف رضا گیلانی انتخاب ہار جاتے ہیں وہ بھی زیر التواءہے ۔انہوںنے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی کوئی ویڈیو یا رپریس ریلیز موجود نہیں بلکہ اکیس جولائی کوایک خط جاری کیا گیا ، بحث کھلنی چاہیے کہ پارٹی کے سربراہ کو تمام اختیارات حاصل ہیں ۔ تحریک انصاف ،(ق)لیگ ثابت کریں پارٹی کی ہدایت موجود تھی اور یہ کب اور کیسے دی گئیں ۔ آپ رن آف الیکشن میں ہے اور یہ معاملہ اپریل سے ہے اور اکیس تاریخ کو لیٹر لے آئے کہ پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلوں کو عزت و احترام کے ساتھ تسلیم کیا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ آئین کی شقوں کی تشریح کیلئے فل بنچ یا لارجر بنچ کے علاوہ کوئی حل نہیں اور اس کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہیے کہ پارٹی سربراہ کا کیا اختیار ہے اگر کوئی پارٹی کو ہدایت جاری نہیںکر سکتا تو پھر سربراہ کیوں ہے ۔ اور اس کیس میںپارٹی کی ہدایت تھی یا نہیں تھی ،دس اراکین کو اسی معیار پر ڈی سیٹ ہونا چاہیے جس پر پچیس لوگ ڈی سیٹ ہوئی تھے۔انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری صاحب کل شاید آپ کا ہماری جماعت میں آنے کا دل کرے کیونکہ دو ڈھائی سال بعد آپ کا دل کرتا ہے میں نے جماعت نہیں بدلی لوگ کپڑے بدلتے ہیں آپ جماعت بدلتے ہیں۔آپ کی مجھے بند کرنے اور پنجاب میں داخل ہونے سے روکنے کی خواہش پوری نہیں ہو ئی لیکن فرح گوگی کو ضرور لے آئیں ہم منتظر ہیں کہ وہ آ کر جواب دیں ،جو عمران خان نے بے نامی پراپرٹی بنائی ہے ۔ جس ضلع میں جائیں ان کی بہنوں کی جائیدادیں مل رہی ہیں جس کے ہمارے پاس کاغذات ہیں، فرح گوگی نیٹ ورک کو پاکسان کو آکر جواب دینا ہوگا ۔ مجھے پتہ ہے کہ عمران خان نے اپنے لوگوں کو کہہ رکھا ہے کہ اگر میں گوگی کی بات کروں تو مجھے پڑ جاﺅ ، بتایا جائے آپ کا اقتدار ختم ہونے سے ایک دن پہلے وہ کیوں ملک سے فرار ہوئی ، کیوں واپسی ممکن نہیں بنائی جارہی ۔