اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی )مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فل بینچ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کرے اور ماضی کے فیصلوں کو دیکھنے کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کا موقف سن کر ایک جامع فیصلہ دے اور طریقہ کار طے کرے تاکہ مزید تنازعات جنم نہ لیں، پارلیمان سے متعلق فیصلے پارلیمان میں ہونے چاہئیں، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی نااہلی کے کیس کی روشنی میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے مسلم لیگ ق کے سربراہ کی ہدایت کی روشنی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ شمار نہیں کئے جوکہ درست فیصلہ ہے، عمران خان ایک طرف عدالت میں گئے ہیں اور دوسری طرف اپنے کارکنوں کو احتجاج کیلئے تیاری کا کہہ رہے جو عدلیہ پردباﺅ ڈالنے کے مترادف ہے، اس کیس پر پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے، ملک کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی استحکام کی طرف لے کر جانا ہے۔ ہفتہ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہ کرانے اور عمران خان کے آئین کے ساتھ کھلواڑ، غیرآئینی، غیرقانونی اقدامات کے خلاف معزز سپریم کورٹ کے جج رات کو آکر بیٹھے جس پر عمران خان سیخ پا ہوئے کہ کیوں رات کو عدالتیں لگی ہیں اور آج خود ان کی جماعت رات کے بارہ بجے عدالت پہنچی۔ آپ خود رات کو عدالت پہنچیں تو ٹھیک ہے لیکن کوئی دوسرا جائے تو غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی اور کے حق میں فیصلہ آجائے تو غلط ہے ان کے حق میں فیصلہ آجائے تو ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اگر پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیسز میں رعایت دیتا رہے، ان کو تاریخیں دیتا رہے، کیس کو التوا میں رکھتا رہے تو ٹھیک ہے، چیف الیکشن کمشنر تب بڑے اچھے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو چیف الیکشن کمشنر برداشت نہیں، ان کے استعفیٰ دینے کی بھی باتیں کی جاتی ہیں، دھمکیوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے زرداری صاحب کو اور دیگر ساتھیوں کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں گڑھیں کہ ایک ممبر کو چالیس کروڑ روپے دیئے اور وہ ترکی چلا گیا۔ کبھی کسی کے بارے میں کہا گیا کہ اسے کروڑوں کی پیشکش ہوئی۔یہ بات ایک ارب روپے سے اوپر چلی گئی، کروڑوں کی کہانیوں پر اتنے پروگرام ہوئے ، تین دن تک پروگرام ہوئے ، پیسوں کی کہانیاں سنانے والے میڈیاکے دوست گزشتہ روز انتخاب کے بعد اپنی ان کہانیوں پرمعذرت کریں گے، کوئی افسوس کا اظہارکریں گے۔ عمران خان کو معذرت، افسوس نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ الزام لگنے کے پانچ منٹ بعد اس کی تردید آئی۔ اس کے باوجود اس پر پروگرام ہوگئے۔ گزشتہ رات خان صاحب نے پھر وہی الزام دہرایا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ساری جماعتوں کے اراکین اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ کسی رکن نے اپنی وفاداری تبدیل نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں ارکان اپنی پارٹی کے سربراہ کی ہدایت کے مطابق فیصلہ دینے کے پابند ہیں۔
اس کی بنیاد یہ ہے کہ عدالت نے یہ نظیر قائم کی ہے کہ ممبران اپنی جماعت کے اصول، منشور اور قیادت کی وجہ سے ووٹ ملتے ہیں لہذا وہ اپنے ووٹ کا استعمال کرتے وقت اپنی جماعت کے فیصلے کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حیران کن بحث ہے کہ آج یہ کہا جا رہا ہے کہ پارلیمانی پارٹی ، توکیاپارلیمانی پارٹی انتخاب لڑتی ہے۔ پارلیمانی پارٹی جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کے بعد وجود میں آتی ہے۔ سارے کام پارٹی کرتی ہے جو منشور بناتی ہے، امیدوار کھڑے کرتی ہے، مہم چلاتی ہے، ہر الیکشن میں کامیاب ہوکر آنے والے اپنے حلقوں اور جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سارے اختیارات اسے حاصل ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے عجیب و غریب تشریح کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز چوہدری شجاعت حسین نے اپنے ممبران کوآگاہ کیا تھا، یہ کہنا درست نہیں کہ انہیں آگاہ نہیں کیا، ان کو باقاعدہ آگاہ کیا گیا تھا کہ آپ نے ووٹ نہیں دینے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں آگاہ کیا جاتا یا نہ کیا جاتا، دونوں صورتوں میں اگر وہ کہنے کے باوجود ووٹ اپنی قیادت کے فیصلے کے خلاف استعمال کرتے تو سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں وہ لوگ ڈی سیٹ ہوتے، ان کا ووٹ شمار نہ ہوتا تو یہی ہوا۔ اب یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے۔ عمران خان کے دور میں سپریم کورٹ میں بہت سے کیسز گئے، ایوان کی کارروائیوں، حکومتی امور سے متعلق کیس گئے ہیں۔ سپریم کورٹ سے مختلف کیسز پر مختلف فیصلے آئے جس پر مختلف آراءآئیں، متضاد آراءآئیں۔ انہوں نے کہا کہ جس فیصلہ کی روشنی میں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے فیصلے دیئے عدالت نے جو فیصلہ کیا اس پر مباحثہ ہوا، اس پر کہا گیا ہے کہ یہ قانونی فیصلہ نہیں بلکہ پہنچایت کے رنگ میں فیصلہ کیا گیا۔ وہ عدالتی فیصلہ بہرحال مانا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب کے فیصلہ کے بعد ایک بار پھر اس پر بحث چھڑ گئی، یہ جج صاحبان کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی کلاس کی بھی بدقسمتی ہے کہ ہم ہم اپنے کیس، اپنے معاملات بار بار عدالتوں میں لے جارہے ہیں۔ پارلیمان کے فیصلے اسمبلیوں میں ہونے چاہئیں۔ باقی سارے ادارے پارلیمان سے جنم لیتے ہیں۔ ہمیں ان قراردادوں کے پاس جاکراپنے تنازعات کے فیصلے نہیں کرانے چاہئیں بلکہ ہمارے فیصلے پارلیمان کے اندر ہونے چاہئیں لیکن یہ ایک روایت چل رہی ہے عدالت بھی اس سے تنگ ہے اور وہ کئی بار یہ کہہ چکی ہے کہ ایسے فیصلے خود کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کیس کی طرح یہ فیصلے بھی متنازعہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس کا دارومدار پاکستان کے مستقبل پر ہے اور اس وقت سیاسی، معاشی، معاشرتی استحکام کی طرف ملک کو لے کر جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر ایک اور متنازعہ فیصلہ آیا تو ایک لمبی بحث چھڑ جائے گی۔ اس سے نیا تنازعہ کھڑا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے دوسری طرف یہ دھمکی بھی دی ہے کہ ہم عدالت کافیصلہ دیکھیں گے اور ساتھ ہی انہوں نے کارکنوں کو تیار رہنے کا کہا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ ان اقدامات سے وہ عدالت پر ایک طرح کا دباﺅ ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران اتحاد جس میں تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں وہ عدالت عظمیٰ سے درخواست کر رہے ہیں کہ تین رکنی بینچ کی بجائے فل کورٹ بیٹھے جو ماضی کے فیصلوں کو بھی دیکھے اور ساری جماعتوں کو سننے کے بعد ایک جامع فیصلہ دے اور طریقہ کار طے کرے تاکہ ایک اورتنازعہ جنم نہ لے اور جاری بحران مزید گہرا نہ ہو، یہ بڑا مناسب مطالبہ اور قرارداد ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے آئین اور پاکستان کے حالات کو مدنظررکھ کر کئے جائیں۔