ایران کے سرحدی صوبے سیستان میں 8 پاکستانی شہریوں کا قتل ایک سنگین اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہے جس نے نہ صرف ایران کی داخلی سکیورٹی کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں بلکہ اس بات کو بھی اجاگر کیا ہے کہ بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کو ایران کی سرزمین پر پناہ حاصل ہے۔ یہ واقعہ ایرانی سرحد کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیش آیا، جہاں مقتولین روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے۔ ان میں سے پانچ افراد کی شناخت دلشاد، ان کے بیٹے نعیم، اور تین دیگر نوجوانوں جعفر، دانش اور ناصر کے طور پر ہوئی ہے۔ دلشاد ایک مرمت کی دکان کے مالک تھے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے یہ تمام افراد وہاں کام اور قیام کرتے تھے۔
اطلاعات کے مطابق، حملہ آور رات کے وقت دکان میں داخل ہوئے، مقتولین کے ہاتھ پاؤں باندھے، اور بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ یہ قتل عام ایک عام واردات نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا دہشت گردانہ حملہ تھا جس میں بلوچ دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ہونے کے خدشات ہیں۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایران میں ان دہشت گرد گروپوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، جو نہ صرف ایرانی سرزمین پر اپنے مذموم مقاصد کے لئے آزادانہ کارروائیاں کر رہے ہیں بلکہ اس کے ذریعے پاکستانی شہریوں کی جانوں کے لئے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ایرانی سرزمین پر پاکستانی شہریوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں نشانہ بنایا گیا ہو۔ گزشتہ سال جنوری میں بھی اسی صوبے میں پاکستانی مزدوروں پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں متعدد افراد جان سے گئے تھے۔ یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ایران دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے، اور ان تنظیموں کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایران کی سکیورٹی کی مکمل ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، جو نہ صرف اس کے داخلی معاملات کی کمزوری کا غماز ہے بلکہ اس کے بین الاقوامی تعلقات اور سکیورٹی کے بارے میں بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ پاکستانی شہریوں کا قتل اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ایران کی سرزمین پر بلوچ دہشت گرد تنظیمیں مکمل طور پر متحرک ہیں، اور ان کے خلاف کوئی واضح اور مؤثر حکمت عملی اختیار نہیں کی جا رہی۔
یہ واقعہ ایک اور اہم سوال اٹھاتا ہے: انسانی حقوق کے علمبردار کہاں ہیں؟ جب پاکستان میں اسی نوعیت کا واقعہ پیش آتا ہے تو عالمی سطح پر فوراً احتجاج اور مذمت کی جاتی ہے، لیکن ایران میں ہونے والے اس دردناک قتل پر ان عالمی اداروں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ دفاعی ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا انسانی حقوق کے یہ علمبردار ایران میں ہونے والے اس واقعہ کی مذمت کرنے کی جرات رکھتے ہیں؟ اگر یہی واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو فوراً عالمی برادری کی جانب سے مذمت کی جاتی اور پاکستان کے اندر قوم پرست تنظیمیں اور سیاسی حلقے ریاستی اداروں کو نشانہ بناتے۔
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایرانی حکام پاکستانی شہریوں کی سکیورٹی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں۔ کیا پاکستانی شہریوں کا خون اتنا سستا ہے کہ ایران کو غیر ملکی مقیم باشندوں کی حفاظت کی کوئی پرواہ نہیں؟ یہ سوال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایران اپنی سکیورٹی کی صورتحال پر کتنی توجہ دے رہا ہے اور کیا وہ ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھائے گا یا نہیں۔
یہ وقت ہے کہ ایران عالمی سطح پر اپنی سکیورٹی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے اور پاکستانی شہریوں سمیت تمام غیر ملکی مقیم باشندوں کی حفاظت کے لئے مؤثر اقدامات کرے، تاکہ اس طرح کے دردناک واقعات کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے۔