کراچی (آغاخالد)7 لاکھ گھروں کو سولر پاور کی تقسیم اور سیلاب متاثرین کو 21 لاکھ مکانات تعمیر کرکے مالکانہ حقوق کے ساتھ دینے سے پپلز پارٹی کا اندرون سندھ ووٹ بینک پہلے سے زیادہ مضبوط ہواہے یہ پارٹی کی نوجواں قیادت بلاول بھٹو کا وژن اور صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ کا بڑا کارنامہ ہے کیونکہ ایسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل سے 2028 کے انتخابات میں اندرون سندھ پی پی کے امید واروں کو اپنے ووٹرز کے سامنے ندامت نہیں ہوگی اور وہ بلا تردد ووٹ مانگ سکیں گے اسی طرح کراچی کا جیالا بھی شرجیل انعام میمن کے ٹرانس پورٹ کے منصوبوں کو متوقع انتخابی مہم میں فخر سے پیش کرسکے گا یہ منصوبہ جب مکمل ہوگا تو کراچی میں سینکڑوں گرین، لال اور پیلی چمکتی ایئر کنڈیشنڈ بسیں سڑکوں پر ہوں گی اور روزانہ ایک عارضی تخمینہ کے مطابق 50 لاکھ لوگ دن رات میں ان پر سفر کرسکیں گے تو کراچی کے شہریوں کو نہ صرف جدید سفری سہولتیں حاصل ہوں گی بلکہ ٹریفک جام کا مسلہ بھی ہمیشہ کے لیے حل کیا جاسکے گا، دوسری طرف سید ناصر حسین شاہ کی نگرانی میں ورڈ بینک کے تعاون سے دو لاکھ گھروں کو سولر پاور کی سہولتیں فراہم کرنے کا آغاز کراچی کی نواحی آبادی ملیر کراچی سے جو پی پی کا مضبوط گڑھ ہے کردیا گیاہے اگلے مرحلہ میں اندرون سندھ تقسیم کیے جائیں گے بعد ازاں حکومت سندھ کے بجٹ سے مزید 5 لاکھ سولر پاور تقسیم کیے جائیں گے اس سے صوبے کے بجلی کے مہنگے بلوں کے بھار تلے دبے غریب لوگوں کو چھٹکارہ مل سکے گا، صوبے کے غریب عوام میں اپنے عوام دوست منصوبوں سے پی پی کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ کرنے والے سید ناصر حسین شاہ کون ہیں آئیے آج یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں شاہ کا تعلق دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ایک چھوٹے سے شہر روہڑی سے ہے جہاں ان کے والد سید شبیر شاہ کا بھی سکہ چلتا تھا وہ روہڑی کے کربلا معلی کے مشہور کربلا محلہ میں رہائش پذیر ہیں جہاں 9 محرم کو صوبہ کا سب سے بڑا ماتمی جلوس نکلتا اور کربلا میدان میں اس کا 9 اور 10 محرم کی درمیانی شب پڑائو اور رات بھر ماتم ہوتاہے اس مذہبی جلوس کی میزبانی سید ناصر حسین شاہ کا خاندان کرتا ہے یہ فریضہ جدی پشتی ان کے خاندان کے ذمہ ہے شاہ سے قبل ان کے والد یہ فریضہ ادا کرتے تھے اس لیے ناصر شاہ مستند گدی نشیں یا درگاہی نہ ہونے کے باوجود علاقہ میں اسی تکریم کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں جو سندھ کے مشہور پیروں یا سیدوں کی معروف گدی نشینوں کو حاصل ہے اہم بات یہ ہے کہ روہڑی میں عشرہ محرم کے دوران سنیوں کے حقوق کا بھی خاص طور پر خیال رکھا جاتاہے اور اس مذہبی رواداری میں شاہ فیملی کا اہم کردار ہوتا ہے اس خاندان کا کمال یہ ہے کہ یہ بیک وقت شیعہ اور سنیوں میں یکساں مقبول اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، انگریز دور میں سکھر بیراج اور تاریخی کینچی پل کی تعمیر میں مزدوری اور فنی تعاون کے نظریہ سے لائے گئے پنجاب سے بڑے پیمانے پر پنجابی مزدور بعد ازاں انہی علاقوں میں آباد ہوگئے ایسے محنت کش پنجابی روہڑی اور اس کے اطراف رہائش پذیر ہیں جن میں خلجی اور آرائیں قبیلہ کی اکثریت ہے یہ لوگ سنی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر کربلا محلہ اور اس کے اطراف بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں سید ناصر شاہ سے مذہبی دوری کے باجود ان کے اخلاق اور حسن ظن کی وجہ سے وہ تمام لوگ 90 کی دہائی تک عصبیت زدہ ماحول میں بھی سید ناصر شاہ کے اندھے ووٹرز تھے اور آج بھی ہیں اس رشتے میں سید ناصر شاہ کی والدہ کا بھی بڑا کردار ہے جو لاہور کے پنجابی خاندان سے تعلق کے علاوہ عبادت گزار اور ہمدردانہ رویہ کی وجہ سے اپنے پڑوسیوں میں بہت مقبول تھیں جبکہ علاقہ کے لوگوں کی اکثریت آج بھی مرحومہ کی ثناء خوانی کرتی نظر آتی ہے، صوبے کی سب سے بڑی اور مقبول پپلز پارٹی میں موجودہ مقام کے حصول میں سید کی جہد مسلسل کو بڑا دخل ہے وہ بلا کے ذہین، معاملہ فہم، ہمدردانہ مزاج، اور بلا تخصیص غریبوں کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں اس کا ثبوت کراچی کی پوش آبادی ڈیفنس فیز 8 میں ان کا گھر "علی ہائوس” ہے جہاں روزانہ صبح 10 سے 12 بجے تک اور پھر رات گئے حاجت مندوں کا ہجوم انہیں گھیرے رہتاہے اور یہاں بغیر کسی وقفہ کے کھلی کچھری لگتی ہے جہاں روزانہ دس بیس نہیں سینکڑوں لوگ فیض پاتے ہیں اندرون سندھ کے دور دراز گائوں گوٹھوں اور کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد ان کھلی کچھریوں میں اپنے گھمبیر مسائل سے چھٹکارہ پاتی ہے کیونکہ ناصر شاہ صوبائی کابینہ میں بھاری بھرکم وزیر ہیں پھر اپنے اخلاق اور نیاز مندی سے افسر شاہی میں بھی بہت مقبول اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور اس مقبولیت کا فائدہ کھلی کچھریوں میں مسائل کا شکار لوگ اٹھاتے ہیں، یہ اکثر دیکھا گیاہے کہ سید کی وزارت سے ہٹ کر کسی بھی محکمہ کا مسلہ ہو جب شاہ جی کا لکھا نوٹ یا تعارفی کارڈ پہنچتاہے تو لوگوں کو مثبت جواب ملتاہے اسی لیے کھلی کچھری میں اب رش اتنا زیادہ ہونے لگاہے کہ "علی ہائوس” کا مہمان خانہ کھچا کھچ بھرجانے کے بعد بنگلہ کے لان اور گیلریوں میں بھی سائلین ٹولیوں کی شکل میں امید و یاس کے ساتھ کھڑے پائے جاتے ہیں اس کا اصل فائدہ پی پی کو بحیثیت ایک سیاسی جماعت کے پہنچ رہاہے جس کا ووٹر کراچی جیسے مہنگے شہر سے مطمئن ہوکر واپس اپنے گھروں کو لوٹتاہے۔