آج دنیا بھر میں عالمی یوم خواتین منایا جا رہا ہے۔ تقریبات ہو رہی ہیں، تقریریں ہو رہی ہیں، خواتین کے حقوق پر دعوے کیے جا رہے ہیں اور ان کی جدوجہد کو سلام پیش کیا جا رہا ہے۔ مگر سندھ کی ایک بیٹی، ایک صحافی، ایک کالم نگار اور ایک پبلشر ہونے کے ناطے، میرے دل میں کئی سوالات اور دلائل ہیں، جو میں اس یوم خواتین پر پیش کرنا چاہتی ہوں۔
میرا نام بلقیس جہاں ہے۔ میں صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ میں کالم لکھتی ہوں، چار کتابوں کی مصنفہ ہوں اور روزنامہ "سندھ آفیئرز” کی پبلشر ہوں۔ صحافت کے شعبے میں قدم رکھتے وقت میرے خواب بہت بلند تھے۔ میں نے سوچا تھا کہ سندھ کی بیٹی ہونے کے ناطے اپنے صوبے کے مسائل، محرومیوں اور عوامی آواز کو سامنے لاؤں گی۔ میں نے سوچا تھا کہ سچ اور انصاف کی بنیاد پر ایک ایسا پلیٹ فارم بناؤں گی جو ہر بے آواز کی آواز بنے گا۔
مگر خواب دیکھنا اور خواب پورے کرنا، یہ دونوں بالکل مختلف چیزیں ہیں — خاص طور پر اس سندھ میں جہاں میرٹ نامی چیز صرف تقریروں میں نظر آتی ہے اور عملی میدان میں ہر دروازے کی چابی "کمیشن” ہے۔
چند سالوں میں ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ سندھ میں صحافت ایک مقدس پیشہ نہیں بلکہ ایک "کاروبار” ہے۔ اور اس کاروبار میں اصول، کردار اور سچائی سب اضافی چیزیں ہیں۔ سب سے زیادہ اہم وہ تعلقات اور کمیشن ہیں جو آپ کو اشتہارات، کوریج اور مراعات دلوا سکتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ یہاں قلم بیچے جاتے ہیں، خبروں کی بولیاں لگتی ہیں اور خواتین صحافیوں کو خاص طور پر "قابلِ سودا” سمجھا جاتا ہے۔
یہاں میں سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن اور سیکریٹری اطلاعات ندیم الرحمن سے سوال کرنا چاہتی ہوں۔ دونوں حضرات جو اطلاعات کی وزارت کو عوامی خدمت کا نہیں بلکہ ذاتی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، کیا آپ کو کبھی خیال آیا کہ خواتین پبلشرز کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ آپ کی وزارت کے دروازے ان خواتین کے لیے بند کیوں ہیں جو نہ کسی کے درباری ہیں، نہ کمیشن دینے کو تیار ہیں اور نہ ہی اپنی خودداری پر سمجھوتہ کر سکتی ہیں؟
اطلاعات کے نظام کو چند پسندیدہ افراد اور "سیاسی پالتو صحافیوں” تک محدود کرنا، کیا یہ آپ کی پالیسی ہے؟ کیا سندھ میں میڈیا کے نام پر جو چند مخصوص جیبیں بھری جا رہی ہیں، اس کا کوئی جواب ہے آپ کے پاس؟
میری بارہا درخواستوں کے باوجود، میرے اخبار کو اس کا جائز حق نہیں دیا گیا۔ نہ سرکاری اشتہارات ملے، نہ کسی ادارے نے میرے پلیٹ فارم کو اس قابل سمجھا کہ وہ آزاد صحافت کی علامت بن سکے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ میں نے آپ کے در پر کمیشن اور سفارش کے بت توڑنے کی کوشش کی؟ ندیم الرحمن آپ مجھے کہتے ہیں کہ میں مائی جندو نہیں. آپ اپنے اسٹاف کے سامنے میرے اخبار کو بند کرنے کی دہمکی دیتے ہیں.
میرا سندھ کے خاموش صحافیوں سے یہ سوال ہے
اور یہاں میرے ان تمام دوستوں سے سوال ہے جو سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے مراعات لیتے ہیں اور بدلے میں زبان بندی کا معاہدہ کرتے ہیں۔ آپ سب نے اپنے ضمیر کا سودا کر کے جو خاموشی خریدی ہے، کیا وہ آپ کے بچوں کو فخر سے بتانے کے قابل ہے؟ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ سندھ کے صحافیوں کی یہ خاموشی تاریخ کا حصہ نہیں بنے گی؟
آپ کی خاموشی نے آج مجھ جیسی خاتون صحافی کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ آپ کی مراعات نے سچائی کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ آپ کے سودوں نے سندھ کے عام صحافی کی زبان بندی کو پالیسی بنا دیا ہے۔ میں آج آپ سب سے سوال کرتی ہوں کہ کیا آپ کا ضمیر واقعی اس بات کو تسلیم کر چکا ہے کہ صحافت کا مطلب صرف ذاتی فائدہ ہے؟
یہاں میرا سندھ کی خواتین پبلشرز سے یہ سوال ہے کہ
کیا تم سب اس استحصالی نظام کا حصہ بنو گی. اگر ایسا ہے تو تمھیں کوئی حق نہیں کہ تم آج کادن منائو تم جو آج یہ سب سہہ رہی یہی مقدر تمھاری بیٹیوں کا بھی بنے گا. ہمارا ہر عمل ہمارے بچوں کے لیے مٹال ہوتا ہے میں تم سب سے پوچھتی ہوں کیا خوف ہے؟ اگر آپ خود اپنی حق تلفی پر خاموش رہیں گی تو عام عورت کو کیا حوصلہ دیں گی؟
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر ہم سب خواتین پبلشرز، صحافی اور کالم نگار ایک آواز ہو جائیں تو اس نظام کے فرعونوں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے؟ مگر افسوس، ہم نے اپنی صفوں میں ہی مفاد پرستوں اور کمیشن خوروں کو گھسنے دیا اور آج ہم بےآواز ہیں۔
اور آخر میں، میرا سب سے بڑا سوال سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے ہے۔ جناب وزیر اعلیٰ، کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ سندھ میں یوم خواتین منانا کوئی حقیقی عمل ہے؟ کیا یہ سب سیمینار، تقریبات اور واکس محض دکھاوا نہیں؟
میں نے آپ کو اور چیف سیکریٹری کو ذاتی طور پر درخواستیں دیں، میں نے اپنی آواز آپ کے در تک پہنچانے کی کوشش کی، مگر نتیجہ وہی نکلا — ڈھاک کے تین پات۔ آپ کی انتظامیہ نے بھی وہی جواب دیا جو اس نظام کا وتیرہ بن چکا ہے: یا تو جھک جاؤ، یا گھر بیٹھ جاؤ۔
لیکن میں نہ جھکی ہوں اور نہ بیٹھوں گی۔ میں اپنی آواز ہر اس پلیٹ فارم پر اٹھاؤں گی جہاں سچ کا ایک بھی سننے والا موجود ہے۔ میرا مقدمہ صرف میرا نہیں، یہ ہر اس خاتون کا مقدمہ ہے جو اس صوبے میں اپنی جگہ بنانے نکلی ہے اور جسے اس نظام نے کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
آخر میں وزیر اعلی سے یوم خواتین کے موقع پر میری یہی گزارش ہے کہ سندھ میں خواتین کو صرف خوشنما نعروں میں نہ سمیٹا جائے۔ ان کے حقوق کو عملی طور پر تسلیم کیا جائے۔ خواتین پبلشرز، صحافیوں اور کالم نگاروں کو برابر کے مواقع دیے جائیں۔ اور سب سے بڑھ کر، صحافت کے مقدس پیشے کو کمیشن اور ذاتی مفادات کے شکنجے سے آزاد کیا جائے۔
یہ میرا مقدمہ ہے۔ فیصلہ ہر پڑھنے والے کو دینا ایک لائک اور کمنٹ بھی میری جیت ہے اس کرپٹ سسٹم کے خلاف