لاہور(نمائندہ خصوصی)قائم مقام صدر مملکت سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی موجودہ دور کا ایک بڑاچیلنج ہے،اہم مسائل پ تبادلہ خیال کرنا پائیدار اور جامع مستقبل کیلئے ضروری ہے، قانون سازی کے ذریعے افراد کو بااختیار اور معاشرے کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے ، معیاری صحت اور تعلیم تک رسائی خوشحال معاشرے کی بنیاد ہے،جنوب مشرقی ایشیاء کو غربت اور عدم مساوات جیسے مسائل درپیش ہیں ، پارلیمان صرف قانون ساز ادارے نہیں بلکہ تبدیلی کے انجن ہیں ، چیلنجز پر قابو پانے کیلئے سرحدوں سے بالاتر علاقائی تعاون اور مشترکہ ذمہ داری کا مظاہرہ کر نا ہو گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز یہاں پنجاب اسمبلی میں سی پی اے ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی مشترکہ علاقائی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا جمہوریت کو مستحکم کرنے اور عوامی خدمات کو زیادہ موثر بنانے کے لیے ضروری ہے، مقامی حکمرانی عوام کو براہِ راست فیصلہ سازوں سے جوڑتی ہے، احتساب کو بہتر بناتی اور متنوع آوازوں کو سننے کا موقع فراہم کرتی ہے، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو فروغ دینے سے جمہوریت کو مزید فعال بنایا جا سکتا ہے انہوں نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کی افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ شاید وہ ملک میں واحد سیاستدان ہیں جو لوکل گورنمنٹ کی پیداوار ہیں۔جو نچلی سطح سے اوپر آکر سپیکر قومی اسمبلی ،چئیر مین سینیٹ ،وزیر اعظم اور اب قائم مقام صدر مملکت کے طور پر اس تاریخی فورم سے خطاب کر رہے ہیںسید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وہ دولتِ مشترکہ کی پارلیمانی ایسوسی ایشن (CPA) کے سیکرٹری جنرل کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک محمد احمد خان اور وزیراعلی مریم نواز کی قیادت کو سراہا جنہوں نے اس کانفرنس کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے ڈپٹی منسٹر نیشنل اینٹی گریشن سری لنکا محمد ملافر محمد منیر،سپیکر پہانگ اسٹیٹ اسمبلی داتو سری حاجی محمد شرکار بن حاجی شمس الدین،جاروس ماتیا ڈپٹی سیکرٹری جنرل سی پی اے اور ڈپٹی سپیکر پیپلزمجلس مالدیپ احمد ناظم سمیت دیگر مہمانوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی اجتماع 100 سے زائد معزز مندوبین، 12 اسپیکرز، 4 ڈپٹی اسپیکرز اور ملائشیا، مالدیپ، سری لنکاو پاکستان کی 22 مقننہ کے نمائندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا ہے۔ اس متنوع علاقائی اور عالمی شرکت نے باہمی تعاون پر مبنی طرز حکمرانی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جو ہمارے عوام، خاص طور پر پسماندہ اور کمزور طبقات کی امنگوں کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں ہم نے مختلف مسائل پر گہرے مکالمے کیے، بصیرتوں، حکمت عملیوں اور بہترین تجربات کا تبادلہ کیا۔ موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، ٹیکنالوجی میں انقلابی تبدیلیاں اور جامع سماجی و اقتصادی ترقی ہمارے مباحثوں کا مرکز رہے۔سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ چیلنجز قومی سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ علاقائی تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کے متقاضی ہیں۔ اس فورم کے ذریعے ہم نے ایک بار پھر اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ پارلیمنٹ صرف قانون سازی کے ادارے نہیں بلکہ تبدیلی کے مراکز بھی ہیں جو حکمرانی کو جدت سے جوڑتے ہیں، سماجی انصاف کو یقینی بناتے ہیں اور منصفانہ معاشی ترقی کو فروغ دیتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جنوب مشرقی ایشیا اپنی متنوع ثقافتوں، تاریخوں اور اقتصادی مواقع کے ساتھ ساتھ غربت، عدم مساوات، شہری ترقی، موسمیاتی تبدیلی اور ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی جیسے مسائل سے بھی دوچار ہے، ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری موضوعاتی نشستوں میں ان چیلنجز اور اجتماعی کوششوں سے فائدہ اٹھانے کے امکانات پر توجہ دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے ذاتی طور پر سب کے لیے معیاری صحت اور تعلیم کی فراہمی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔یہ دو ستون ایک منصفانہ اور خوشحال معاشرے کی بنیاد ہیں۔جب ہم صحت اور تعلیم میں موجود خلا کو پر کرنے کے لیے قانون سازی کرتے ہیں، تو ہم نہ صرف افراد کو بااختیار بناتے ہیں بلکہ معاشروں کو مضبوط اور اقوام کی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین چیلنج پر بھی تفصیل سے گفتگو کی، جو ہمارے وقت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات درکار ہیں اور اس کانفرنس نے ہمیں ماحولیاتی تحفظ، پائیدار شہری زندگی اور قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کیا۔انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی کے اثرات پر بھی بحث کی گئی، جو مواقع کے ساتھ ساتھ خطرات بھی رکھتی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا، ایک طرف، حکمرانی کو بہتر بنانے کے آلات فراہم کرتے ہیں، تو دوسری طرف، رازداری، غلط معلومات، اور سیکیورٹی جیسے خدشات کو بھی جنم دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بطور قانون ساز ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جدت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ ٹیکنالوجیز ذمہ داری سے استعمال کی جائیں۔ یہی وہ شعبہ ہے جہاں سرحد پار تعاون بہترین حل نکالنے میں مدد دے سکتا ہےانہوں نے کہا کہ بطور پارلیمنٹیرینز ہم پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اختلافات کو کم کریں، مختلف نقطہ نظر کو ہم آہنگ کریں، اور ایسے قوانین بنائیں جو ہمارے عوام کی ضروریات کو پورا کریں۔ ہمیں ایسے پائیدار طرز حکمرانی کو اپنانا ہوگا جو تعاون، لچک، اور برابری کو فروغ دے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی ملک یا ادارہ تنہا ان چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتا۔تعاون محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ناگزیر ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس صرف مکالمے کے لیے نہیں بلکہ عملی اور ٹھوس نتائج کے لیے بھی ایک بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس نے ہمیں 21ویں صدی کے چیلنجز کے تناظر میں حکمرانی کو از سر نو متعین کرنے اور جامعیت و پائیداری کے عزم کو مزید مضبوط کرنے کا موقع دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب ہماری بحثوں کو قانون سازی، تعاون کے فریم ورک اور طویل المدتی علاقائی حکمت عملیوں میں ڈھلنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ "لاہور ڈیکلریشن” ہمارے لیے ایک رہنما اصول ثابت ہوگا، جو یہاں پیدا ہونے والی مثبت توانائی کو برقرار رکھنے اور بین الپارلیمانی و علاقائی تعاون کو مزید مستحکم کرنے میں مدد دے گا۔سید یوسف رضا گیلانی نے شرکا کانفرنس سے گزارش کی کہ ہم اس جذبے کو برقرار رکھیں اور جدید طرز حکمرانی، اختراع اور شراکت داری کے اس عزم کو آگے بڑھائیں، جو اس کانفرنس کی خاص پہچان رہی ہے۔ آئیے مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری پارلیمان ترقی، استحکام، اور امید کے ستون بنی رہیں، تاکہ آنے والی نسلیں ایک بہتر مستقبل کی امید رکھ سکیں۔ انہوں نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے وطن واپسی کے محفوظ سفر اور لاہور میں گزارے گئے مفید لمحات کی خوشگوار یادوں کے ساتھ واپسی کیلئے دعا گو ہوں ۔قبل ازیں اسٹیفن ٹوئگ سیکرٹری جنرل سی پی اے نے خطبہ استقبالیہ دیا اور قائم مقام صدر مملکت کا شکریہ ادا کیا۔