اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی):سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے جمعہ کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں ”کشمیر ریسورس سینٹر“ (کے آر سی) کا افتتاح کر دیا۔ سیکرٹری خارجہ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام مسلسل بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنا بنیادی حق خود ارادیت استعمال نہیں کر سکے ہیں، آج کشمیری عوام کے حقیقی نمائندے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، سیاسی قیدیوں کی کل تعداد ہزاروں میں ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری رہنما سید علی گیلانی دوران حراست انتقال کر گئے، بھارتی حکام کشمیری عوام کی حقیقی امنگوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا رہے ہیں، اب تک 14 سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جموں و کشمیر کے بڑے حصوں پر بھارت کے مسلسل قبضے نے کئی مواقع پر علاقائی امن و استحکام کو خطرات سے دوچار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کا پرامن حل جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے ضروری ہے۔ سیکرٹری خارجہ نے کشمیر ریسورس سینٹر کے قیام کے لیے آئی ایس ایس آئی کی تعریف کی اور امید ظاہر کی کہ یہ مرکز محققین، پریکٹیشنرز اور عام قارئین کے لیے علم کا ایک مفید ذخیرہ پیش کرے گا۔انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں انڈیا سٹڈی سینٹر نے اس موقع پر یوم یکجہتی کشمیر کے حوالہ سے ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سہیل محمود نے کہا کہ جہاں پاکستان اور کشمیری سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مبنی حل کے لیے اپنی جدوجہد میں پرعزم ہیں، بھارت طویل عرصے سے اپنے وعدوں سے مکر گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری جیو سٹریٹجک تحفظات یا کارپوریٹ مفادات کی وجہ سے اپنا صحیح کردار ادا کرنے سے ہچکچاتی ہے۔بھارت نے مقبوضہ علاقوں میں جبر، سیاسی ہیرا پھیری اور ڈیموگرافک تبدیلی عمل میں لائی ہے ۔ بھارت عالمی برادری کو دھوکہ دینے اور اپنے جرائم کی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے 5 اگست 2019ء سے کشمیریوں کی جائز مزاحمتی جدوجہد کو "دہشت گردی” کا رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ پاکستان کے خلاف ”سرحد پار دہشت گردی“ کے الزامات لگا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ جموں و کشمیر کے منصفانہ حل کے امکانات پر یقین رکھنا ضروری ہے۔آئی ایس ایس آئی میں نئے قائم کردہ کشمیر ریسورس سینٹر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سہیل محمود نے امید ظاہر کی کہ یہ پچھلی صدی کے عالمی مسائل کے بارے میں خاص طور پر پاکستان کے نوجوانوں میں آگاہی اور افہام و تفہیم پیدا کرنے اور باخبر گفتگو کو فروغ دینے میں بامعنی کردار ادا کرے گا۔انہوں نے کے آر سی کے قیام میں تعاون پر وزارت خارجہ کا بھی شکریہ ادا کیا۔قبل ازیں اپنے تعارفی کلمات میں انڈیا سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس نے کہا کہ پاکستان ہر سال یوم یکجہتی کشمیر مناتا ہے تاکہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا جاسکے۔سیمینار میں ممتاز مقررین نے مسئلہ کشمیر پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ فاطمہ وحید نے کہا کہ دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کشمیر کی شناخت کو مٹانے کی ایک کوشش ہے جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب دنیا جمہوریت اور انصاف کی قدر کرنے کا دعویٰ کرتی ہے تو کشمیریوں کو ان دونوں سے کیوں انکار کیا جا رہا ہے۔سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز کی طیبہ خورشید نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے درمیان مضبوط رشتہ ہے، آزاد جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے پاس ایک بہتر مستقبل کی امیدیں اور امکانات ہیں جو کہ بھارتی قبضے میں کشمیری نوجوانوں کے ساتھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جھوٹ پھیلانے اور نوجوانوں میں بے اطمینانی کے بیج بونے میں سرگرم رہا، آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کو بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہاتھ ملانا چاہیے۔سماجی اور سیاسی تجزیہ کار نائلہ کیانی نے جدوجہد آزادی میں کشمیری خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ کشمیری خواتین نے وحشیانہ جبر اور نظامی تشدد کے سامنے غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے کشمیری خواتین نے احتجاج، دھرنوں اور مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کی ہے۔ انہوں نے آسیہ اندرابی، انجم زمرد حبیب اور فہمیدہ صوفی جیسی خواتین کی قربانیوں کو اجاگر کیا جو برسوں سے بھارتی جیل میں ہیں۔ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی کی پالیسیوں پر بات کی۔انہوں نے کہا کہ جب مودی نے 2014ء میں اقتدار سنبھالا تو اس نے کشمیری سیاسی رہنمائوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینر غلام محمد صفی نے تنازعہ کشمیر کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو بھارتی فورسز کی حراست میں قتل اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، عصمت دری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے تنازعہ جموں و کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی بھی ملک کو جو بھارت کا سٹریٹجک پارٹنر ہے، اسے ثالثی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے اور تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے کسی بھی بات چیت میں کشمیری قیادت کو شامل کرنا چاہیے۔اپنے اختتامی کلمات میں چیئرمین بورڈ آف گورنرز خالد محمود نے کہا کہ حق خود ارادیت ایک بنیادی انسانی حق ہے اور کشمیریوں کو یہ حق اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہے، وہ وقت دور نہیں جب جموں و کشمیر کے لوگ اپنے حق خود ارادیت کا استعمال کریں گے۔