اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی):وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں” مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم : چیلنجز اور مواقع ” کے عنوان سے منعقدہ عالمی کانفرنس کے اختتام پر اتوار کو 17 نکاتی تاریخی”اسلام آباد اعلامیہ”جاری کر دیا گیا ہے جس میں لڑکیوں کے بنیادی تعلیمی حقوق کو قومی ترجیحات میں شامل کرتے ہوئے ان کے تحفظ و فروغ ، تربیت کے مواقع کی ضمانت اور اس ضمن میں اجتماعی کاوشیں و وسائل بروئے کار لانے اور حائل رکاوٹوں کا موثر حل تلاش کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ لڑکیوں کی تعلیم صرف ایک مذہبی فریضہ ہی نہیں بلکہ ایک اہم معاشرتی ضرورت اور بنیادی شرعی حق ہے جسے قانونی، آئینی اور شرعی تحفظ حاصل ہے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کے اسلامی تہذیب کے مطابق فروغ ، اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے موثر حل کی تلاش اور غلط فہمیوں کے ازالہ کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا گیا کہ اسلامی تعلیمات کے اصولوں کی روشنی میں تعلیمی عمل کو منظم کیا جائے تا کہ شناخت اور اقدار کا تحفظ ہو، قومی اور
عالمی سطح پر تعلیم اور تربیت کے معیار کو بلند کرنے میں معاون تجربات سے استفادہ کیا جاسکے،اعلامیہ میں اسلامی ممالک کی حکومتوں کی مدد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے پر زور دیا گیا اور تعلیم کیلئے وسائل اور نصاب کو بہتر بنانے، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو قومی ترجیحات میں شامل کرنے، ان کے تعلیمی حقوق کی ضمانت اور پائیدار ترقی کے اہداف کے بین الا قوامی وعدوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا، غربت، تنازعات اور سماجی چیلنجز سے متاثرہ لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے مفت اسکالر شپس دینے کی تجویز ، اسلامی فقہی اداروں کے فیصلوں اور علما کے فتاوی پر توجہ دینے کی سفارش کی گئی، جو خواتین کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے شرعی حق کو تسلیم کرتے ہیں، اسلام آباد اعلامیہ میثاق مکہ مکرمہ اور میثاق مدینہ المنورہ جیسی دو تاریخی دستاویزات سے رہنمائی لیتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی نے مسلم علما کے اتفاق رائے سے مرتب کیا ۔ عالمی کانفرنس سے مسلم اقوام کی جانب سے ان کے مختلف مذاہب، مکاتب فکر اور ثقافتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اور پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی سرپرستی اور شرکت کے ساتھ یہ تاریخی اعلامیہ پیش کیا گیا ۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ پڑھی لکھی عورت دنیا میں امن و سکون ، سماج کو انتہا پسندی، تشدد، جرائم سے بچانے میں معاون ہوتی ہے، بعض معاشروں کی رسوم و رواج ، انتہا پسندانہ خیالات، فتاوی اور نظریات جو لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ ہیں ، خواتین کو کم تر سمجھتے ہیں، یہ مذہب کا افسوسناک استحصال ہے جس کا مقصد محرومی اور علیحدگی کی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنا ہے۔ عالمی کانفرنس میں رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور مسلم علما کونسل کے چیئر مین شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے شرکت کی جو مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے اس اہم اقدام کے بانی ہیں۔ ان کے ساتھ دنیا بھر کے نامور علمائے کرام ، مفتیان عظام ، اور آئمہ کرام کے علاوہ ان ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوئے جہاں مسلم اقلیتوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔اس کا نفرنس میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکرٹری جنرل حسن ابراہیم بھی شریک ہوئے، جو اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم کے 57 رکن اسلامی ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم عمل ، عالمی شخصیت ملالہ یوسفرئی نے بھی شرکت کی ۔ رابطہ جامعات اسلامیہ کے سیکرٹری جنرل پر وفیسر سامی الشریف نے بھی رکن جامعات کی نمائندگی کرتے ہوئے شرکت کی، جو اسلامی ممالک کی سرکاری اور نجی جامعات کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل ہے۔اس کا نفرنس میں اسلامی ممالک کے وزرائے تعلیم اور وزرائے اعلی تعلیم نے بھی شرکت کی ، جنہوں نے اس مہم کی حمایت اور لڑکیوں کی بلا مشروط اور بلا مانع تعلیم کی حمایت کرنے والے اسلام کے حقیقی تصور کو واضح کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے شرکت کی۔
اقوام متحد و سے وابستہ سرکاری بین الا قوامی تنظیموں اور تعلیم، خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق سے متعلق بڑی غیر سرکاری تنظیموں کے سر بر اہان اور نمائندے نے بھی شرکت کی۔ اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی واحد یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پیس کے صدر پروفیسر فرانسکور دخاس ارافینا بھی اس موقع پر موجود تھے، جو اقوام متحدہ سے وابستہ ایک خصوصی یونیورسٹی ہے اور جس کے اعزازی سر بر اہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ اسلامی ممالک کی نیوز ایجنسیوں کے اتحاد کے ڈائریکٹر جنرل محمد عبد ربہ الہامی نے بھی شرکت کی، جس میں تمام اسلامی ممالک کی حکومتی نیوز ایجنسیاں شامل ہیں، ان کے ہمراہ اسلامی ممالک کی نیوز ایجنسیوں کے سربراہان اور نمائندے بھی موجود تھے، جنہوں نے اس تاریخی سر گرمیوں میں شرکت کی اور اس کی میڈیا کوریج کی ۔
اس عظیم اجتماع نے پر جوش عزم اور مضبوط اتحاد کے ساتھ ، اس تاریخی اعلامیے کی توثیق کی ہے۔ یہ اعلامیہ اپنی عملی نوعیت اور مثبت نتائج کے اعتبار سے منفرد اعلامیہ ہے، جس پر کا نفرنس کے اختتامی دن عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی خصوصی سرپرستی میں اور رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور چیئر مین مسلم علما کونسل، شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کی دعوت پر لڑکیوں کو ان کے تعلیمی حقوق سے استفادہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔
مسلم اقوام اور ان کی ترقی کے لیے اپنی بڑی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے، لڑکیوں کی تعلیم کو اسلامی تہذیبی تصور کے مطابق فروغ دینا، اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے لیے موثر حل تلاش کرنا اور اس سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا اس کا نفرنس کا مقصد تھا۔ کا نفرنس نے ”میثاق مکہ مکرمہ اور میثاق مدینة المنورہ” اسلامی ممالک کے درمیان پل قائم کرنے کے چارٹر جیسی دو تاریخی دستاویزات سے رہنمائی لیتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی نے مسلم علما کے اتفاق رائے سے ایک متوازن طریقے سے یہ تاریخی اسلام آباد اعلامیہ تشکیل دیا ہے ۔
امت مسلمہ کے جید علمائے کرام و مفتیان عظام اور فقہی مجالس کے نمائندگان سے بند کمرہ اجلاس کے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد اسلام آباد میں رابطہ عالم اسلامی کی مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اقدام کے تحت کانفرنس کا انعقاد کیا، یہ اجلاس جمعہ 10 رجب 1446ھ کو کا نفرنس ہال میں سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی اور چیئر مین مسلم علما کونسل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کی زیر صدارت بند کمرہ منعقد ہوا۔اس اجلاس میں اسلامی دنیا کے جید علمائے کرام و مفتیان عظام ، فقہی مجالس، رابطہ عالم اسلامی کی اسلامی فقہ اکیڈمی اور اسلامی تعاون تنظیم کی بین الا قوامی اسلامی فقہ اکیڈمی کے نمائندگان شریک ہوئے۔
اجلاس کا موضوع اسلامی دنیا کے اہم ترین مسائل میں سے ایک، یعنی ”لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنے کا حق تھا، جسے بغیر کسی حد بندی یار کاوٹ یقینی بنانے پر غور کیا گیا۔اجلاس کے اختتام پر شرکا نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ خواتین کی تعلیم ایک شرعی حق ہے جس پر امت مسلمہ کے علما کا اتفاق ہے۔ شریعت اسلامیہ کے مطابق، علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد یا عورت) پر فرض ہے شرکا نے زور دیا کہ اس حق کو کسی خاص عمر، سطح تعلیم یا کسی مخصوص شعبے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو شریعت اسلامیہ سے منسوب کر نادرست نہیں، کیونکہ امت کے تمام مکاتب فکر کے قدیم اور جدید علما نے مردوں کی طرح خواتین کی تعلیم کی شرعی حیثیت پر اجماع کیا ہے۔
شرکا نے خواتین کی تعلیم کے بارے میں کسی بھی غلط فہمی کو جواز فراہم کرنے کے لیے شرعی احکامات کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور ان کے مقاصد عالیہ کی خلاف ورزی کے خطرات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ رسوم ورواج یا کسی اور مقصد کے لیے ایسا کرنا شریعت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس بے مثال اور اہم اسلامی اجتماع کی اسٹریٹجک اور فیصلہ کن اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ، جس میں مختلف اور با اثر مذہبی رہنمائوں نے اس اہم اور حل طلب مسئلے پر غور کرنے کے لیے شرکت کی ۔ دنیا بھر کے مسلم معاشروں خاص طور پر تنازعات اور کشیدگی کے شکار علاقوں میں، جہاں مواقع کم اور رکاوٹیں زیادہ ہیں، وہاں لڑکیوں کی تعلیم کی صور تحال پر غور کرنے اور موجودہ عالمی چیلنجز اور سماجی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تبادلہ خیال کیا گیا۔
اہم اور تاریخی اجلاس کے اختتام پر مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم جیسے بنیادی مسئلے پر اس نوعیت کے پہلے اقدام کو سراہا گیا، جس میں دنیا بھر کے مذہبی قائدین نے شرکت کی، جو کروڑوں مسلمانوں پر اثر رکھتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی تقریب ہے جس نے صحیح راستہ اختیار کیا ہے اور مذہبی منطق اور درست طریقہ کار کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کی ہے۔ کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ لڑکیوں کی تعلیم صرف ایک مذہبی فریضہ ہی نہیں بلکہ ایک اہم معاشرتی ضرورت بھی ہے۔ یہ ایک بنیادی حق ہے جسے اسلامی تعلیمات نے لازم قرار دیا اور عالمی معاہدوں نے اسے مضبوط کیا اور قومی آئین نے اس کو استحکام بخشا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے اصولوں کی روشنی میں تعلیمی عمل کو منظم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا، تا کہ شناخت اور اقدار کا تحفظ ہو، اور ان تجربات سے استفادہ کیا جاسکے جو قومی اور عالمی سطح پر تعلیم اور تربیت کے معیار کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔
اسلامی ممالک کی حکومتوں کی مدد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے پر زور دیا گیا ، تعلیم کیلئے وسائل اور نصاب کو بہتر بنانے، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو قومی ترجیحات میں شامل کرنے، ان کے تعلیمی حقوق کی ضمانت اور پائیدار ترقی کے اہداف کے بین الا قوامی وعدوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔ بعض معاشروں کے رسوم و رواج ، انتہا پسندانہ خیالات، فتاوی اور نظریات جو لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ ہیں ، خواتین کو کم تر سمجھتے ہیں، یہ مذہب کا شرمناک استحصال ہے، جس کا مقصد محرومی اور علیحدگی کی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنا ہے، اسلامی ممالک کی حکومتوں کی مدد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے پر زور دیا گیا ، تعلیم کیلئے وسائل اور نصاب کو بہتر بنانے، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو قومی ترجیحات میں شامل کرنے، ان کے تعلیمی حقوق کی ضمانت اور پائیدار ترقی کے اہداف کے بین الا قوامی وعدوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔
غربت، تنازعات اور سماجی چیلنجز سے متاثرہ لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے مفت اسکالر شپس دینے کی تجویز دی گئی۔اسلامی فقہی اداروں کے فیصلوں اور علما کے فتاوی پر توجہ دینے کی سفارش کی گئی، جو خواتین کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے شرعی حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان فیصلوں کو عام کرنے اور ان شاذ و نادر آرا کا موثر جواب دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو خواتین کے اس فطری اور دینی حق کی مخالفت کرتے ہیں۔ تعلیمی مواد کو ڈیجیٹل شکل میں تیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی، تاکہ تعلیمی ادارے اور بین الاقوامی تنظیمیں ایسا مواد تیار کریں جو لڑکیوں خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تعلیم تک رسائی کو آسان بنائے ۔
خصوصی ضروریات رکھنے والی لڑکیوں کے لیے تعلیمی پروگراموں کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا، تاکہ ان کے لیے موزوں تعلیمی ماحول فراہم کیا جاسکے اور تربیت یافتہ اساتذہ کی موجودگی یقینی بنائی جاسکے ، تاکہ انہیں مساوی تعلیمی مواقع اور سماجی شرکت کا حق حاصل ہو۔ اسلامی ممالک کی قانون ساز تنظیموں کو دعوت دی گئی کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے قوانین ، ضوابط اور قومی نظام وضع کریں۔ مسلم دنیا کے سرکاری اور نجی میڈیا اداروں کو لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر شعور اجاگر کرنے کے لیے بیداری مہم اور تعلیمی پروگرام شروع کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان مہمات میں ماہرین تعلیم ، علما، ائمہ اور رہنمائوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے اور ان مخالف آوازوں کا جواب دیا جائے جو اس حق کی مخالفت کرتی ہیں، تاکہ اسلام کے اصل تشخص کو اجاگرکیا جا سکے۔ان مطالعات اور تحقیقی کاموں کی حمایت کی جائے جو مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں اور اس کے فروغ کے لیے بہترین طریقے تجویز کرتے ہیں، نیز ان رکاوٹوں کو کم کرنے کی تجاویز پیش کی گئیں جو اس راستے میں حائل ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل اور چیئر مین مسلم علما کونسل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کی طرف سے پیش کئے گئے اس بین الا قوامی شراکت داری کے وسیع پلیٹ فارم کے اقدام کی تعریف کی گئی، جو مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کے لیے قائم کیا گیا ہے، جس میں اقوام متحدہ کی تنظیمیں، سرکاری اور نجی ادارے شامل ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام افراد یا ادارے جو ان مسلمہ اسلامی اور دینی اصولوں کی مخالفت کرتے ہیں یا ان پر تحفظات رکھتے ہیں، وہ متفقہ طور پر امت مسلمہ کے دائرہ فکر سے خارج ہیں اور ان نظریات سے (خواہ انفرادی، ادارہ جاتی ، عوامی یا نجی ہوں ) اعلان برات کیا جائے۔کا نفرنس کے شرکا پلیٹ فارمز ، بشمول دینی اجتماعات اور اسلامی دنیا اور اقلیتی ممالک میں جمعے کے خطبات کے لئے واضح اور فیصلہ کن پیغام دیتے ہیں، اسلام کو بد نام کرنے اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کی کوششیں بند ہونی چاہئے۔ اس اقدام کے محرک، سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی اور چیئر مین مسلم علما کونسل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کو کا نفرنس کی تمام قرار دادوں کو آگے بڑھانے اور عمل درآمد اور مادی اور اخلاقی طور پر ان کی حمایت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکرٹری جنرل کے ذریعے اسلامی حکومتوں تک دونوں اداروں کے درمیان طے شدہ معاہدے کو مسلم ممالک اور مسلم اقلیتوں والے ممالک میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں تک پہنچایا جائے اور واضح پیغام دیا جائے کہ اسلامی دنیا اور اقلیتی برادریوں میں مذہبی اسباق بھی شامل ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کی غلط تشریح اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کو ختم کیا جائے۔ مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل اور مسلم اسکالرز کی تنظیم کے چیئرمین شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کو اس عمل کے آغاز کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اختتام پر کا نفرنس کے شرکا نے وزیر اعظم شہباز شریف کا کا نفرنس کی میزبانی اور حمایت کرنے پر شکر یہ ادا کیا۔انہوں نے رابطہ عالم اسلامی کا بہترین انتظامات پر بھی شکریہ ادا کیا اور اس اقدام کے محرک سے مطالبہ کیا کہ وہ اس اہم اقدام کے نتائج کی پیروی بشمول ان معاہدات پر موثر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے کے لئے ایک مستقل کمیٹی تشکیل دیں، یہ اقدام ان شا اللہ دستخط شدہ معیاری معاہدات کے ذریعے عملی اور واضح نتائج کا حامل ہو گا۔ یہ محض اعلان نہیں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ایک انقلابی تبدیلی ہو گا جس سے ہر محروم لڑکی اور ہر ضرورت مند معاشرہ مستفید ہو گا۔