اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی):مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم ، چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے منعقدہ عالمی کانفرنس کے دوران پینل مباحثہ کے مقررین نے بچیوں کے سکول جانے کی شرح کو بہتر بنانےکیلئے کمیونٹی شمولیت کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے ترقی ، امن ،سلامتی اور انصاف کے لیے خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ مذہبی سکالر ، میڈیا اور تمام سٹیک ہولڈر کو اس ضمن میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا ۔ان خیالات کا اظہار لڑکیوں کی تعلیم ، چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے منعقدہ عالمی کانفرنس کے پہلے روز منعقدہ پینل مباحثے کے مقررین نے اپنی گفتگو کے دوران کیا ۔ پینل ڈسکشن کی صدارت جمہوریہ تاجکستان میں یورپی یونین کی ایلچی جسنا جیلک کررہی تھیں ۔پاکستان میں یونیسیف کے پروگراموں کے لیے نائب نمائندہ محترمہ شرمیلا رسول نے تبادلہ خیال کرتے ہوئے سکول جانے والے بچوں کی تعداد کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ یہ عمل کمیونٹی کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ۔انہوں نے عالمی کانفرنس کی میزبانی پر حکومت پاکستان کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں سکول جانے والے بچوں کی تعداد کو بڑھانے کے لیے قابل ذکر اقدامات کئے ہیں اور 20سال کے دوران اس ضمن میں بہت بہتری آئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم پاکستان کے
تعلیمی ایمرجنسی پروگرام کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں تاہم معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی حکومت کی کوششوں میں ہاتھ بٹانا ہو گا ۔ پینل ڈسکشن کے دیگر مقررین نے بھی معاشرے کے تمام طبقات کی شمولیت کو یقینی بنانے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی وزارت یا عالمی ادارہ تنہا اس ضمن میں بہتری نہیں لا سکتا ، اس کے لیے معاشرتی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔جمہوریہ ازبکستان کے تحقیقاتی شعبہ برائے اسلامی تہذیب مرکز کی سربراہ محترمہ ڈاکٹر گلناراجانیوا نے کہا کہ اسلام کے حوالے سے منفی تاثر کو درست کرنے کی ضرورت ہے ، اسلام یکساں تعلیم کی ضرورت پر زور دیتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ترقی ، امن ،سلامتی اور انصاف کے حصول کے لیے بچیوں کی تعلیم ناگزیر ہے اور اسلامی معاشرہ بچیوں کی تعلیم کا درس دیتا ہے ۔انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ معاشرے کے تمام فریقین کی شمولیت کے بغیرسکول سے باہر بچوں کی رجسٹریشن کے مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکتے ا سکے لیے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔اقوام متحدہ اور یونیسکو میں سوئٹزر لینڈ کی یونیورسٹی آف پیس کے مستقل نگران سفیر ڈیوڈ فرناڈیز پوئیانا نے کہا کہ صنفی امتیاز کے خاتمے کے بغیر خواتین کی تعلیم کے چیلنجز پر قابو نہیں پایا جا سکتا، پاکستان کی حکومت نے صنفی امتیاز کے خاتمے ، خواتین کی بااختیاری اور لڑکیوں کو تعلیم دینے کے شعبوں میں نمایاں کام کیا ہے جو قابل تعریف ہے لیکن اس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ڈیکلیریشن پر عملدرآمد کی ضرورت ہے جس سے نمایاں بہتری آئے گی ۔ انہوں نے عالمی سطح پر خواتین کی بااختیاری کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔سنگاپور کی جمعیت دعوت اسلامی کے صدر ڈاکٹر محمد حسبی بن ابوبکر نے تعلیمی شعبہ میں بہتری کے لیے انسانی وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ سنگا پور چھوٹا ملک ہونے کے باوجود تعلیمی شعبہ کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے جس کے لیے انسانی وسائل کو بروئے کار لایا گیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں یہ ایک بڑا چیلنج تھا لیکن ہماری حکومت نے ایکو سسٹم کی بہتری اور خواتین کی تعلیم ، معاش اور ترقی کے لیے اقدامات اٹھائے ، تعلیم کو قابل رسائی بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کی گئیں جس کے مجموعی ترقی پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، سنگا پور سب کے لیے یکساں تعلیم پرمبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنا کردار جاری رکھے گا ۔اس موقع پر سوال جواب کے دوران پینل ڈسکشن کے مقررین نے معاشرے کی سطح پر مذہبی سکالر اور میڈیا کے ذریعے بچیوں کی تعلیم کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ فیصلہ سازوں کے لیے ان اقدامات سے عمل درآمد میں سہولت ملے گی ۔ شرکاء نے عالمی کانفرنس کے انعقاد پر رابطہ عالم اسلامی ، موتمرعالم اسلامی اور حکومت پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس اسلامی معاشرے میں بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے سنگ میل ثابت ہو گی۔پینل ڈسکشن میں مختلف جامعات سے ماہرین تعلیم اور سکالرز نے شرکت کی ۔