لاس اینجلس (نیٹ نیوز)امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں آگ کے شعلے جمعہ کے روز بھی تباہ کن راستے بناتے رہے امریکی حکام کو لگتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی پانی کا نظام لاس اینجلس کی آگ بجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا عالمی میڈیا اورامریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق فائر بریگیڈ کے حکام نے نقصانات کا اندازہ لگانے اور آگ کیسے شروع ہوئی اس کا تعین کرنے کی کوشش کی ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا اس سطح کی تباہی کو کسی طرح کم کیا جا سکتا تھا یا یہ آب و ہوا سے متعلق آفات کے دور میں نیا معمول ہے؟حکومتی رپورٹس اور ایک درجن سے زائد ماہرین کے انٹرویوز کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ حتمی جواب دونوں کا مرکب ہےلاس اینجلس شہر اور کاؤنٹی کے حکام نے آگ کو ایک عظیم طوفان قرار دیا ہے جس میں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والی طوفانی ہواؤں نے انہیں ایسے اہم طیارے تعینات کرنے سے روک دیا جو خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں پانی اور آگ کو روکنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے تھےماہرین کا اتفاق رائے یہ تھا کہ ایک ہی جغرافیائی خطے میں ان ہواؤں بے موسم خشک حالات اور ایک کے بعد ایک پھیلنے والی متعدد آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی کو ناگزیر بنا دیا بہر حال بطور انسان ہم فطرت کے غضب کے اثرات کو ممکنہ طور پر کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کر سکتے تھے، پودوں کے ناقص انتظام پرانے بنیادی ڈھانچے مکانات اور منصوبہ بندی کی کمی نے ممکنہ طور پر آگ کی وجہ بنی جس نے اب تک 55 مربع میل سے زیادہ کو جلا دیا ہے ہزاروں ڈھانچے تباہ ہو گئے ہیں اور کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیںلاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے مکمل تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ یقین رکھو انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ محکموں افراد یا سب کو جوابدہ بنانے کے لیے کیا کام کیا جاسکتا ہے اور کیا کام نہیں کرنا واضح رہے کہ لاس اینجلس کے جنگل میں لگنے والی آگ شہر تک پھیلنے سے اب تک 10 سے زائد اموات ریکارڈ کی جاچکی ہیں تاہم حتمی اموات کا تعین علاقے میں کلیئرنس اور رسائی کے بعد کیا جاسکے گا ہزاروں گھر مکمل تباہ ہوچکے ڈیڑھ لاکھ کے قریب آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑی ہےعالمی ماہرین اور اداروں کے مطابق اس آگ سے نقصانات کا تخمینہ 150 ارب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے تاہم ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ نقصانات کہاں تک پہنچیں گے