کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)84 قطر پائپ لائن پھٹنے پر کراچی کے معاشی حب گلشن اقبال، صدر، کیماڑی و ٹاور اور ڈیفینس تک کے اضلاع کی آدھی آبادی پانی کی بوند بوند کو ترس گئی۔21 دن مسلسل پانی کی فراہمی دھابے جی سے بند رہی۔ واقعہ پر نہ تحقیقات،نہ کسی افسر پر ذمہ داری عائد کی گئی، نہ شہریوں سے اس غلطی کی معافی مانگی گئی جبکہ نا اہل کارپوریشن کے افسران کی بدانتظامی کے باعث ایک واقع پر دھابے جی سے 320 ملین گیلن پانی کی پمپنگ بند کر دی گئی،جس کی حکام نے تصدیق کی ہے۔ واقعہ کی چھان بین کے دوران واٹر ٹرنک مین کے افسران بشمول چیف انجینئر ظفر پیلیجو، قائم مقام سپریٹنڈنٹ تنویر شیخ اور دیگر افسران کو ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی نااہلی، ٖغفلت،عدم توجہی کے ساتھ بدانتظامی کے باعث کراچی کے معاشی حب تین اضلاع میں 22 دن تک پانی کا بحران سنگین تر رہا۔ چیف انجینئر فراہمی آب محمد علی شیخ کا کہنا ہے کہ یہ بحران اب تک موجود یے۔ بعض علاقوں میں پانی کی فراہمی آب تک مکمل طور پر بحال نہ ہوسکی۔ کراچی کے گیارہ ہزار کلومیٹر کے 24,18،16,12،8،6،4 انچ قطر کی پائپ لائن میں پانی کی فراہمی بحال نہ ہوسکی۔ شہری پانی کی بوند بوند کو ترس گئے، لیکن حیرت ہے کہ ایسے موقع پر ٹینکروں سے پانی فراہمی جاری ہے جس میں اربوں روپے کا گھناؤنا کھیل اور کاروبار عروج پر ہے جس سے پانی کی فراہمی بند کرنے کی سازش کا پتہ چلتا یے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پانی کی پمپنگ بند کرنے کی وجہ سے جی کے سائفن سے 320 ملین گیلن پانی کی فراہمی مکمل طور پر بند ہو گئی۔ یہ کراچی میں اپنی نوعیت کا سردی میں یہ پہلا واقع ہے۔اس شرمناک واقعہ پر نہ تحقیقات،نہ کسی افسر پر ذمہ داری عائد کی گئی۔ واٹر مین ٹرنک کے عملے کی نااہلی کی تصدیق افسران نے کردی ہے جبکہ ریڈ لائن پروجیکٹ پر الزام عائد کرتے ہوئے 5 کروڑ روپے کلیم کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ نااہلی غفلت کے مبینہ طور پر واٹر مین ٹرنک کے افسران نے سائفن 19جی کے اور 20 جی کے سے 140ملین گیلن پانی فراہم ہونے والی تین 84 کی لائن میں سے ایک پھٹ گئی تھی۔ بدانتظامی کے باعث تینوں لائن سمیت 10 موٹر پمپنگ دھابے جی سے بند کردی گئی اور سی او ڈی فلٹر پلانٹ سے پانی کی فراہمی مکمل طور پر بند ہوگئی ہے جبکہ دھابے جی سے جی کے 280 ملین گیلن پانی کو دو سائفن کے ذریعے پانی کی فراہمی میں ایک 140 ملین گیلن پانی لانڈھی کے ذریعے اور دوسرا نارتھ ساوتھ پمپنگ اسٹیشن شادی ٹاون سپر ہائی وے تک پانی آتا ہے جہاں سے 84 لائن پر تین گیٹ لگے ہوے ہیں ایک شادی ٹاون، دوسرا کراچی یونیورسٹی کے سامنے اور تیسر ا سمامہ کے سامنے لگا ہوا ہے، اگر ریڈ لائن کے مزدوروں نے جی کے 19 کی ایک لائن غلطی سے پھاڑ دی تھی یا پھٹ گئی تھی لیکن اگر گیٹ درست حالت میں ہوتا تو پانی کی ایک لائن بند کرکے سپلائی جاری رکھی جاسکتی تھی۔ کارپوریشن کی بدانتظامی کے باعث جی کے/140 140ملین گیلن پانی کی فراہمی دھابے جی کے پمپنگ سے مکمل طور پر بند کردی گئی۔ دھابے سے 320 ملین گیلن پانی کی فراہمی مکمل طور پر بند کردی گئی،جس کے نتیجے میں کراچی کے تین اضلاع بشمول شرقی،جنوبی اور کیماڑی میں پانی کی فراہمی مکمل طور پر بند ہوگئی ہے۔ کراچی کے ان تینوں اضلاع میں آدھی آبادی متاثر ہوئی تھی۔ ایک افسر نے بتایا کہ 84 کی لائن پھٹ گئی، لائن میں مٹی ڈال کر بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف مٹی نکالنے کا عمل تاخیر کا باعث ہوا اور لائن کی مرمت کا کام بھی متاثر ہوا تھا۔ اس دوران 84 کی دوسری لائن بھی متاثر ہوئی اور اس کی مرمت کا کام بھی متاثر ہوا۔ ان ہنگامی حالات میں صرف دیکھ بھال میں بد انتظامی کے باعث پائپ لائن کی مرمت میں مزید تاخیر ہوئی۔ ٹھیکیداروں کے تین سو مزدور، ایک درجن سے زائد کارپوریشن کے افسران دن رات کام کررہے تھے۔ ایک افسر کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالات میں کھانے کی فکر نہیں ہوتی ہے تاہم یہاں تو کھانے کے ایف سی، بڑے بڑے ہوٹل سے آ رہے تھے اس موقع پر پکنک کا سماع تھا۔ ایسے ہنگامی حالت میں افسران کی موجیں لگ گئی تھیں۔ افسر نے بتایا کہ ٹھیکیدار بھی مخصوص تھا اور اسے بل کی ادائیگی کا چکر بھی نہیں لگانا پڑتا تھا۔ اس ٹھیکیدار کو چیک کے ذریعے براہ راست ادائیگی سے کمیشن اور رشوت کی ادائیگی نہیں کرنی ہوتی ہے۔ اس ایک ٹھیکیدار نے تین ٹھیکیداروں کو کام دیا ہوا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کارپوریشن نے ریڈ لائن پروجیکٹ کو 8 ارب روپے سے زائد مالیت کا منصوبہ دیا تھا جن میں جی کے 19 اور 20 جی کے کی لائن کی منتقل،کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس پائپ لائن کی تبدیلی،آر سی پائپ کی مرمت کے علاوہ یونیورسٹی روڈ کی سڑک پر ڈک یا کلوڑ کی تعمیرات شامل تھی۔ کئی مقام پر 84 کی تینوں لائنوں کی مرمت یا تبدیل کرنے کے ساتھ 72،66، 48،36 اور دیگر لائنوں کی تبدیلی یا شفٹ کرنا شامل ہے۔ یونیورسٹی کے سامنے جی کے لائن لفیٹ سائڈ کو بہتر کرنا بھی شامل ہے یا ریڈ لائن کے اطراف متبادل لائن ڈالنا بھی اس میں شامل ہے۔ ریڈ لائن پروجیکٹ نے پرانی سبزی منڈی اور قائد اعظم کے مقبرے کے اطراف بھی پانی کی لائن کو متاثر کیا تھا۔ ریڈ لائن پروجیکٹ کو اس منصوبے کا مکمل نقشہ ڈھائی تین سال قبل دیا گیا تھا جس پر کام نہ ہوسکا۔ میئر کراچی مرتضی وہاب سے چیف ایگزیکٹو آفیسر سمیت تمام افسران نے خرابی کی ذمہ داری ریڈ لائن پروجیکٹ پر ڈالنے کی کوشش کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کارپوریشن کے دعویٰ کو مسترد کردیا تھا اور سابق چیف انجینئر کی جانب سے تین سال پہلے ریڈ لائن پروجیکٹ کو ارسال کیا گیا سفارشات، پی سی ون، نقشہ جات پر مشتمل ریکارڈ پیش کیا تو کارپوریشن کے افسران کی جان بخشی ہوئی اور پانچ کروڑ روپے کلیم کو تسلیم کیا گیا۔ آئندہ منصوبے میں ناخوشگوار واقع سے بچنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر زور دیا گیا تاہم کارپوریشن، واٹر مین ٹرنک کے افسران کی بدانتظامی کے باعث ہونے والے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے جی کے سائفن سے پانی کی سپلائی 140 ملین گیلن فراہمی بند کردی گئی، مگر تین مقامات پر گیٹ موجود ہونے کے باوجود بند کی جاسکتی تھی اور شہریوں کے نقصانات کی تلافی کو کم کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ ٹینکروں کے ذریعے سندھ سرکار سمیت سب کو نظر آگئی تھی۔ دو 84 قطر پائپ لائن سے پانی کی فراہمی روک کر سی او ڈی فلٹر پلانٹ کو پانی کی فراہمی بحال رکھی جاسکتی تھی،جبکہ کارپوریشن کی ریکارڈز، انڈس سے پانی کی فراہمی کے منصوبہ میں پہلی 1959ء میں 10 ملین گیلن دھابے جی، دوسرے فیز میں 1971ء میں 77 ملین گیلن دھابے جی، تیسرے فیز 1978ء میں 80 ملین گیلن دھابے جی، چوتھے فیز میں 1997ء میں 82 ملین گیلن دھابے جی، K-2 منصوبہ 96بملین گیلن 1998ء دھابے جی، K-3 منصوبہ 124 ملین گیلن 2006ء،گھارو سے 29 ملین گیلن 2003ء اور حب ڈیم سے 100ملین گیلن 1984ء فراہم کیا جارہا ہے۔ کراچی کا انڈس سے 1200 کیوسک یعنی 65 کروڑ 40 لاکھ گیلن یومیہ پانی فراہم کے کوٹہ میں 6 کروڑ 50 لاکھ گیلن بچ جانے والے پانی کا منصوبہ زیر التواء ہے۔