مولانا مسعود الرحمن عثمانی شہید رح سے پہلی ملاقات منظور کالونی کراچی میں 1997 میں ہوئ ، عثمانی شہید رح میں شہید اعظم والی جھلک تھی ،، اعظم صاحب جیل میں تھے ،، انکی کمی انہوں نے پوری کر رکھی تھی ،، یہ وہ دور دورہ تھا جب اس خوبصورت شہدا کی جماعت پر کڑا وقت تھا ، کانٹوں کی سیج تھی ، ایسے میں اگر کوئ تھا جو کارکنوں میں حوصلہ اور ہاتھ رکھتا تو وہ عثمانی صاحب ہی تھے ، جو سندھ کے دیہاتوں ، شہروں ، بلوچستان کے ریگزاروں ، خیبر پختونخوا کے پہاڑوں ، چناروں سمیت اقتدار کے بادشاہ پنجاب کے پر اثر ارض پر مشن حق کو بیان کرتے رہے تو وہ عثمانی شہید رح ہی تھے ۔
سپاہ کے کارکنان اس عظیم ہیرے کو غنیمت سمجھتے تھے ۔آپ انداز اعظم ، للکار ضیاء الرحمان فاروقی اور مزاج حق نواز شہید رح رکھتے تھےآپکی ہر ادا میں ایک الگ جھلک ظاہر ہوتی ۔مولانا مسعود الرحمان عثمانی شہید رح سادہ طبیعت اور سخت مزاج کی حامل شخصیت رہے ، کارکنان سے محبت انکا وصف تھا ، لیکن جماعتی دستور ، مشن سے زرا بھی ہٹکر نہ گفتگو کی اور نہ ہی اس حوالہ سے کسی کا خیال رکھا ۔ حق گوہ تھے اور زندگی بھر اسی انداز سے گزار گئے ۔
مولانا مسعود الرحمن عثمانی شہید رح سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں ، شہر کراچی میں انہیں موٹر سائیکل پر جسلہ گاہ تک پہنچانے کا شرف بھی رہا ہے ۔ لیاقت آباد کا یاد گار جلسہ اور اسمیں داخلی و خارجی پالیسی بہترین اپنائ ۔
پنجاب کے شاہینوں والے شہر سرگودھا میں بھی مولانا اکرم عابد رح اور مولانا رحیم بخش صدیقی رح کی سرپرستی میں مختلف تنظیمی پروگرامات سیمینار میں حضرت سے ملاقاتیں رہیں
ہزارہ ڈویژن کے ایبٹ آباد کی مختلف مساجد میں ماہ رمضان المبارک کے آخری ایام میں حضرت عثمانی شہید رح کے ساتھ پروگرامات میں جاتے رہے جہاں محترم حاجی غلام مصطفیٰ جدون کی سرپرستی حاصل تھی ۔
مولانا مسعود الرحمن عثمانی شہید رح کے ساتھ ایک مرتبہ پشاور کا سفر بھی ہوا ، ہم ایبٹ آباد سے صوبائی صدر حاجی غلام مصطفیٰ جدون حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انکی گاڑی میں ، سابق ایم پی اے اور موجودہ پاکستان راہ حق پارٹی کے سربراہ جناب حکیم ابرہیم قاسمی صاحب اور بھائ بابو خان کی زیر نگرانی ایک جلسہ میں تھے ، واپسی پر حاجی مصطفی جدون صاحب کی گاڑی ہی میں پچھلی سیٹ پر میرے ساتھ حضرت عثمانی شہید رح بھی تشریف فرما تھے ، انہیں سر میں درد تھا ، اس دوران میں نے عثمانی شہید رح کا سر دبانا شروع کیا یقین جانئے کہ انکا سر جگہ جگہ سوجا ہوا تھا ، جس پر میں نے کہا کہ حضرت ! یہ کیا ماجرا ہے ؟ فرمانے لگے کہ بھائ ، دن رات کے سفر جلسے ، تقاریر ، آرام کے لئے وقت ہی نہی ہوتا ، تو بسوں اور عام گاڑیوں میں ہی یوں اونگتے نیند کا ایک موقع میسر آجاتاہے ، باقی نتیجہ آپ نے خود دیکھ ہی لیا کہ اس اونگتے نیند میں سر کبھی سیٹ کے آگے کبھی ساتھ لوہے کے راڈ پر ٹکراتا رہتا ہے جسکی وجہ سے یہ سوجن ہوہی جاتی ہے ۔
حضرت عثمانی شہید رح سادہ طبیعت کے حامل تھے ، نمود و نمائش سے بھی دور رہتے ، حالانکہ بہت سے علماء خطباء کو ہم نے دیکھا ہے جو جہاں جاتے ہیں وہاں میزباں کے ہاں کوئ نہ کوئ مہربان ٹکر جاتا ہے جو اپنے محبوب مہمان کا سر پاوں دباتا ہے ، لیکن حضرت عثمانی شہید رح ان سب معاملات سے دور رہتے ۔
پاکستان کے کسی بھی جگہ وقت دینے کے بعد وہاں عام سی لوکل سواری میں پہنچ جاتے اور پھر خاموشی سے اسٹیج پر آکر مزاج حق نواز اور انداز اعظم رح کا عملی تصویر نظر آتے ۔
پشاور سے واپسی اور رات کے تین بجے ، حاجی مصطفی جدون صاحب کی گاڑی سے حسن ابدال موڑ پر اترے اور مسکراہٹ جو کبھی آپکے چہرہ کو چار چاند بنا جاتی سے ہمیں الوداع کیا ۔ ہم تو گاڑی میں ایبٹ آباد کی طرف ہولئے ، بعد کا اللہ جانے ، کہ حضرت کیسے وہاں سے اسلام آباد اپنے گھر پہنچے ہونگے ، یہ انکے لئے کوئ بڑی بات یا نیا سلسلہ نہی تھا انکا تو روز کا معمول تھا ، پر میرے لئے یہ انوکھا منظر لگا ۔
بلاشبہ آپ اپنے انداز میں علم و عمل کے ساتھ صلاحیتوں سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے ، ہمیشہ سنجیدہ رہے ، تقاریر میں کارکنان کی بھرپور اصلاح ، تنبیہہ کرتے ہوئے آخر میں مشن حقہ پر گامزن رہنے کا عزم لیتے ۔
اس دور جدت میں سوشل میڈیا ، موبائل اور تصویر کشی سے اپنے آپ کو دور کئے رکھا ، تقریر کی شروع میں ہی دو چار منٹ اس فتنہ پر تنبیہ گفتگو فرماتے ۔ یہاں گھارو شہر میں شہادت سے چند ماہ قبل مرکزی قائدین کی قیادت میں تشریف لائے ، اپنے خطاب کے دوران انداز وہی رہا جو انکا ہزاروں کے اجتماع میں ہوتا ہے ۔
عالم اسلام کا اتنا بڑا خطیب اور سامنے ڈیڑھ ، دو سو لوگ ہوں ، لیکن تقریر وہی کی جو وہ کرتے ہیں شروع ہی میں فرمایا کہ بھائ میری گفتگو سنجیدہ اور مشن کو سمجھنے والوں سے ہے ، لہذا موبائل بند کردیں اور مجھے غور سے سنیں
تقریر کے شروع کرتے وقت راقم الحروف انکے قریب گیا تاکہ اخبار کے لئے تصویر بناسکوں ، ڈر بھی تھا کہ ڈانٹ پڑے گی ، میں نے فوراً کہا کہ حضرت ، صرف ایک اخبار کے لئے ، پھر بھی غصے سے دیکھا اور مسکرا بھی دئے ۔
کچھ سال قبل غالباً 1999 کی بات ہوگی ، حیدر آباد میں کہیں جلسہ تھا ، میں نے فون پر حضرت سے کہا کہ آپ واپسی کراچی ہی آرہے ہیں تو دھابیجی آجائیں صبح فجر کے بعد آپ کا بیان کراتے ہیں ، مان گئے مجھے رات ہی یار لوگوں نے میرے والد محترم کے ہاتھوں یرغمال بنادیا ، میں گھر میں بند ہوں ، ادھر فکر حضرت کی تھی ، کہ کیا بنے گا ، صبح فجر کے بعد حضرت کے چاہنے والے بھی بڑی تعداد میں پہنچے ہیں انتظار ہورہا ہے لیکن نہ میزبان کا پتہ اور نہ ہی مہمان کا پتہ ، دوسری طرف مخالف یار لوگ اس گری ہوئی حرکت پر فاتح انداز میں مسکرا رہے ہیں بہرحال مجھے دن گیارہ بجے آزادی ملی باہر آیا تو اپنوں نے شکوہ کیا ، یار لوگ شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ نظر آئے ، میں نادم اور پشیمان رہا ۔
یہ وہ وقت تھا جب موبائل ہمارے ہاتھوں میں نہی تھا میں نے حضرت سے رابطہ پی سی او کے ذریعے کیا تھا ، کچھ دنوں بعد کہیں حضرت عثمانی شہید رح سے سامنا ہوا مسکرائے تو ضرور پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا ، جس پر میں نے اپنے اوپر گزرے حالات بتائے ، تو فرمانے لگے کوئ بات نہی ہمارا مشن ہی ایسا ہے ، جو دشمن کو تو ایک طرف ، ہمارے اپنے یار لوگوں کو بھی ہضم نہیں ہوتا ۔ تب میں نے پوچھا کہ آپ اپنا بتائیں کہ آپ نے حیدرآباد جلسہ کے بعد کیا طریقہ اختیار کیا ؟ فرمایا کہ میں رات تین بجے باہر اسٹاپ پر تمہارے فون کا انتظار کرتا رہا اس میں صبح ہوگئ ، قریب پٹرول پمپ کی مسجد میں نماز پڑھی اور کراچی کے لئے بس میں روانہ ہوا ۔
اس واقع سے آپ لوگ اندازہ لگائیں کہ کیا قیمتی انسان تھا کیا سوچ فکر تھی وہ اپنے آپ میں ایک جماعت تھے ۔
یہ تو ایک واقعہ ہے ، ایسے بے شمار واقعات حضرت کے ساتھ پیش آئے ہیں ۔
2004 میں حضرت عثمانی شہید رح سے پھر کہا کہ دھابیجی تشریف لائیں ، تو ہنس دئے اور کہا کہ پھر رابطہ منقطع ہوا تو ؟ میں نے کہا حضرت اس دفعہ حیثیت اچھی ہے الحمداللہ بس آپ آئیے گا ۔ چنانچہ صبح دس بجے کا وقت طے ہوا ، حضرت عثمانی صاحب اپنے رفقاء میں ڈاکٹر فیاض خان شہید رح کے ساتھ دھابیجی وقت مقررہ پر پہنچے ناشتہ کا انتظام عرفان شیخ کے گھر تھا ، ناشتہ کے بعد قریبی توحید مسجد میں تشریف لائے اور وہاں مختصر سا بیان میں صحابی رسول حضرت حنظلہ غسیل الملائکہ کا ایک خوبصورت واقعہ بیان کیا ۔
اسکے بعد آخری بار حضرت عثمانی شہید رح دھابیجی میں سالانہ پیغمبر انقلاب کانفرنس میں تشریف لائے جہاں اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جامع گفتگو فرمائ ۔
شاید ، غالباً 2001 میں حضرت عثمانی شہید رح کو لاہور کے قریب ہی دوران سفر بس میں کسی دشمن نے پہچان لیا اور موقع غنیمت جان کر حضرت کے قریبی سیٹ پر براجمان ہوا ، حضرت کو اس نامعلوم نے ایسے گفتگو میں لگایا کہ حضرت جیسے ذہین ترین شخصیت بھی اسکی جھوٹی گفتگو میں آگئے ، اس نے حضرت کو اپنے ساتھ اترنے کی منتیں کیں کچھ کھانے کی فرمائش کی ، حضرت عثمانی صاحب بار بار منع فرماتے رہے لیکن اسکی ظاہری محبت غالب ہوئ ، اوراسکے ہاتھ کا زہریلہ برگر کھاگئے ، بس یہ ایک ایسی غلطی تھی جو مہنگی پڑی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپکی پھر بھی زندگی رکھی ہوئ تھی ، برگر کھانے کے کچھ دیر بعد حالت غیر ہوگئی اس نامعلوم شخص نے حضرت کو اپنے ساتھ اتروالیا اور قریب کسی ویران جگہ لے گیا ، جہاں اسنے آپکو مردہ سمجھ کر چھوڑا اور آپ کا بریف کیس جیب میں موجود رقم اور گھڑی سب لے اڑا اور ایک پرچی چھوڑدی جسمیں وہ اپنی فتح اور خوشی کا اظہار کر رہا تھا ۔ حضرت عثمانی صاحب کچھ وقت بعد ہوش میں آئے حالت غیر تھی ، کسی نہ کسی طریقے سے سنسان جگہ سے روڈ تک پہنچے کہیں کوئ پی سی او نظر آیا تو فوراً مولانا اعظم طارق شہید رحمہ اللہ سے فون پر بات کی اور اپنے اوپر گزرا واقعہ بتایا ، اعظم صاحب نے جگہ پوچھی اور قریب کے ذمہ داران کو انکی طرف روانہ کروایا ، یوں آپ ساتھیوں کے ہاتھوں ہسپتال پہنچے ۔
اگلے دن اخبارات میں یہ خبر لگ چکی تھی ، مجھے بھی اخبار کے ذریعے علم ہوا ، کچھ دنوں بعد کہیں ملاقات میں بات ہوئ میں نے مذاقا کہا کہ برگر کھلاؤں ؟ تو مسکرا دئے ۔ پوچھنے پر حضرت نے مذکورہ بالا تحریر شدہ واقعہ بیان کیا ۔
کیا عظیم ہیرا تھا اور عظیم مقدسات کے ناموس پر قربان ہوا ، مزاج حق نواز اور انداز اعظم نے ہمیں ایسے وقت میں چھوڑا جب جماعت اب پھولوں کی سیج پر آچکی ہے ، یہ جدید اور سوشل میڈیا سے بھرا ہوا دور ہے ، اسمیں آپ ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔
وہ دور جب جماعت کانٹوں کی سیج پر تھی ، تب اللہ کریم نے آپکی ہر طرح سے حفاظت فرمائ اور اب اس دور میں اللہ کریم نے آپ کو اپنے ہاں بلوالیا ۔
5 جنوری 2024 اور ۲۲ جنادی الثانیہ یوم وفات سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضہ ، اور بابرکت جمعتہ المبارک والا دن ، زندگی بھر نہی بھول پائے گا ۔ ۲۲ جمادی الثانی کے دن وفات پانے والی عظیم شخصیت وفا کا پیکر سیدنا صدیق اکبر رضہ کا نام لیوا ، انکا سپاہی انہی کے ناموس پر قربان ہوا ۔
علامہ عثمانی صاحب متقی پرہیز گار زہد وتقویٰ کے علمبردار اس دور کا ولی ، آپ نے ہمیشہ باوضو ، ذکر و اذکار میں وقت گزارا ہے ، یقیناً شب جمعہ بھی آپ اعمال سے مزین رہے ہونگے اوپر سے دن جمعہ ، قسمت پر آپ پر نازاں رہی ، مدح صحابہ جلوس کی ترتیب ،
جمعہ کے دن کا شاندار خطبہ اور پھر مدح صحابہ یوم صدیق اکبر رضہ جلوس میں شرکت وہاں بیان لاجواب اور پھر شہادت کی تمنا اور دعا ، اور چند لمحوں بعد شہادت کا تاج پہنے لہو میں سر خرو ہوکر صدیق اکبر رضہ کے ہاں مہمان بنے ۔
جرنیل ثانی جماعت ،
مولانا مسعود الرحمان عثمانی شہید رح ، 1969 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے ، قوم کے راجپوت خاندان سے ہیں ، آپکے والد محترم حضرت مولانا عبدالمعبود رح بہت بڑی علمی شخصیت اور متعدد کتابوں سمیت تاریخ مکہ و مدینہ کے مصنف ہیں ، آپکے والد کی وفات آپکی اہلیہ کی وفات سمیت دیگر قریبی رشتہ داروں کی وفات آپکے شہادت والے سال ہی وقفے وقفے سے ہوئ ۔ عثمانی شہید رح نے اپنی اہلیہ کی نماز جنازہ میں اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ یہ سال ہمارے لئے عام الحزن رہا ، ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں ۔
حضرت عثمانی شہید رح نے امیر عزیمت رح کے ساتھ کچھ سفر کئے تقاریر بھی ساتھ ہوئیں ، آپ امیر عزیمت رح سے انتہا کی محبت رکھتے تھے ، یہی وجہ ہیکہ آپ مزاج حق نواز سے ہی جانے جاتے رہے ۔
حضرت عثمانی شہید رح نے دینی علم کی تکمیل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے کی ، کراچی جماعت کی ابتدا میں آپ شامل رہے ، امیر عزیمت رح کی رہائی کے لئے پہلا احتجاجی مظاہرہ بھی کراچی ہی میں کیا ۔
کڑے کھٹن حالات میں لاہور کی تاریخی جامع مسجد بلال سبزہ زار کے بھی خطیب رہے ، یہ وہ وقت تھا کہ جب مذکورہ مسجد کا امام خطیب سال بھر میں ہی شہید کردیا جاتا تھا ، مولانا سمیع اللہ جھنگوی اور مولانا سیف اللہ خالد شہید رح کی یہ چھوڑی خون میں رنگین مسند کو آپ ہی نے سنبھالے رکھا
مولانا مسعود الرحمن عثمانی شہید رح مشن حقہ کی پاداش میں متعدد بار جیل کی زینت بھی بنے ، آپ نے وہاں جیل میں کتابیں بھی لکھیں ۔
آپ نے 55 سال کے قریب عمر پائ ۔ اور بلآخر عظمت صحابہ و دفاع ناموسِ صحابہ کی خاطر گولیوں سے چھلنی ہوکر باریش و بارونق چہرہ کو خون میں نہلا کر آپ اللہ کے حضور پیش ہوگئے ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
شہادت کے چند دنوں بعد ہی میں اپنے ساتھی حافظ حظیفہ کے ساتھ اسلام آباد پہنچا ،
صاحبزادہ مولانا عثمان عثمانی حفظہ اللہ کے ساتھ ، بمعرفت حافظ اظہار الحق درانی رابطہ کیا ۔ مولانا عثمان حفظہ اللہ نے ہمیں حضرت عثمانی شہید رح کے قبر پر پہنچایا وہاں ہم نے فاتحہ پڑھی ، اور حضرت کے گھر گئے بھائ عثمان نے اکرام کیا ، یہاں قابل ذکر بات یہ ہیکہ حضرت عثمانی شہید رح سے میرا تعلق و محبت ایک خاص حیثیت رکھتا تھا ، کراچی میں انہیں موٹر سائیکل پر بٹھاکر ساتھ سفر کی سعادت رہی ، یہاں اسلام آباد پہنچکر جب عثمان بھائ لینے آئے تو انکے پاس بھی موٹر سائیکل ہی تھی اور انہوں نے خود پیش کی کہ آپ چلائیں یہ میرے پیچھے بیٹھے ، تو اس وقت میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور عثمان بھائ سے مخاطب ہوا کہ تسلسل وصف محبت برقرار ہے ، آپ پیچھے بیٹھے ہو اور ہم مرقد عثمانی شہید رح کی طرف رواں ہیں ، یہی منظر کراچی کی شاہراہوں ہر ہوتا تھا ،
جب آپکی جگہ آپکا والد محترم اور میرا قائد میرے ساتھ یوں اسی انداز میں بیٹھا کرتا تھا ۔
عثمانی شہید رح !!! آج آپ ہمارے درمیاں نہی ہیں پر آپکا نعرہ حق ہمارے کانوں میں گونج رہا ہے ، دلوں میں بسا ہوا ہے ۔
حق بات پہ کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں میری
اظہار حق تو کر جائے گا جو ٹپکے گا لہو میرا
اللہ تعالیٰ آپ پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ۔
آمین یا رب ۔