پاکستان کا جوہری اور میزائل پروگرام کسی معجزے سے کم نہیں ہے اور یہ قومی سلامتی کا ضامن بن چکاہے۔وطن عزیز کا جوہری اور میزائل پروگرام ہمیشہ سے امریکا کی نظر میں تو کھٹکتا رہا ہے۔ امریکی پالیسیاں شروع دن سے پاکستان کی خودمختاری اور دفاعی خود انحصاری کے خلاف رہی ہیں، 1950ء کی دہائی سے امریکا پاکستان کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں امریکی نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر کے بیانات اور بیلسٹک میزائل پروگرام پر عائد پابندیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکا اس پروگرام کو محدود یا ختم کرنے کے عزائم کو پورا کرنے اور دباؤ ڈالنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اور بہانے تلاش کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ امریکا نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے، خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے، پاکستان کو اپنا مکمل غلام بنانے، اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ جمانے کے عمل کو تیز کردیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے چار پاکستانی اداروں پر پابندیاں لگانا، جن پر میزائل پروگرام کو فروغ دینے کا الزام ہے، پاکستان کے دفاعی منصوبوں کو نقصان پہنچانے کی ایک منظم کوشش ہے، ان پابندیوں کا مقصد پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو محدود کرنا اور اسے معاشی دباؤ کے ذریعے کمزور کرنا ہے اور یہی امریکا کا اصل مقصد ہے۔اسی طرح کی پابندیوں کے باوجود پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کسی اسلامی ملک کو ایٹمی قوت دیکھنا نہیں چاہتا، امریکا کی پالیسیاں ہمیشہ بھارت نواز رہی ہیں۔ بھارت کے جوہری اور میزائل پروگرام پر نہ صرف امریکا خاموش رہا ہے بلکہ اس نے تکنیکی اور سفارتی مدد بھی فراہم کی ہے۔ بھارت کو جنوبی ایشیا میں بالادستی دلانے کیلئے امریکا نے پاکستان کو ہر ممکن طریقے سے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اگنی میزائل پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، وہ 5000 کلومیٹر سے زیادہ رینج والے میزائل تیار اور ٹیسٹ کر چکا ہے۔ لیکن پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندیاں اور الزامات عائد کرنا امریکی منافقت کی واضح مثال ہے۔ جبکہ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں اب یہ حقیقت سامنے آ چکی جو کرنا ہے دفاع میں خود کرنا ہے وقت نے ثابت کیا طاقت وروں کے سامنے کوئی اقوام متحدہ نہیں ہے۔ امریکا کے دوغلے پن، اسلام اور پاکستان دشمنی کی ایک پوری تاریخ ہے، کچھ عرصے قبل ہی سابق امریکی صدر جوبائیڈن کہہ چکے ہیں کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے جس کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔ تو ایسے میں تشویش کیوں نہ ہو، کہ امریکا پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے اور اسے نہ صرف محدود کرنے بلکہ ممکنہ طور پر مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے بات چیت کی حکمت ِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ ماضی میں صدر آئزن ہاور کا ”ایٹم برائے امن“ منصوبہ بظاہر جوہری توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینے کے لیے پیش کیا گیا، لیکن مبصرین کے مطابق، اس کا اصل مقصد دنیا کے دیگر ممالک، خصوصاً ترقی پذیر ریاستوں کو جوہری اسلحہ کی صلاحیت سے محروم رکھنا تھا۔ پاکستان کی طرف سے اس منصوبے کو قبول کرنا، امریکی اثر رسوخ کے سامنے جھکنے کی ابتدا تھی۔ 1950 کی دہائی میں پاکستان نے سینٹو اور سیٹو جیسے معاہدوں میں شامل ہو کر امریکی حمایت حاصل کی، لیکن اس کے بدلے اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے قائم کرنے اور منصوبہ بندی کمیشن میں امریکی ماہرین کو تعینات کرنے کی اجازت دی۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ امریکا پاکستان کو اپنے سیاسی اور دفاعی مفادات کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح 1974 میں بھارت کے پہلے جوہری تجربے کے بعد، پاکستان کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی گئی۔ یورینیم کی افزودگی کا کام باقاعدہ شروع ہوا، اور سائنس دان 1982ء تک 90 فی صد افزودگی کے قابل ہوگئے تھے۔پھر مئی 1998ء میں جب انڈیا نے جوہری تجربات کیے تو پاکستان کیلئے کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ بھی جوہری تجربات کرے، اور یوں پاکستان بھی جوہری طاقتوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ ایٹم بم کے پہلے کامیاب تجربے سے لے کر جوہری وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل کے کامیاب تجربے تک ہمارا ملک جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں ایک رہنما رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کا جوہری پروگرام اندرونی اور بیرونی دونوں طاقتوں اور ایجنٹوں کی طرف سے خطرے میں ہے آج بھی ہے اور قوم اسی لیے مضطرب بھی ہے۔ اب تک پاکستان نے معاشی مشکلات اور کمزور حکومتوں کے باوجود قوم کے دباؤ پر اپنے جوہری پروگرام کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن دکھائی دیتا ہے کہ امریکا نئے اور پرانے مطالبات کرسکتا ہے جس میں پہلے نمبر پر جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے کا مطالبہ ہوسکتا ہے۔ اور مشرق وسطیٰ کی خصوصی صورت حال کے پس منظر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی آسکتا ہے اور پاکستان کی کمزور معیشت، بڑھتا ہوا قرض، اور بیرونی امداد پر انحصار، ایسے مطالبات کیلئے راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔آئی ایم ایف کی جانب سے مالی امداد کے بدلے میں ایسی شرائط عائد کی جا سکتی ہیں جو پاکستان کے دفاعی پروگرام کو متاثر کریں۔