اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس سینیٹر شہادت اعوان کی زیر صدارت ہوا جس میں واٹر سیکٹر گورننس اور احتساب سے متعلق اہم امور کا جائزہ لیا گیا۔منگل کو اجلاس میں کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد میں تاخیر اور واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو 29 ارب 41 کروڑ روپے کا نقصان سمیت اہم آڈٹ رپورٹس پر عمل نہ کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔سینیٹر شہادت اعوان نے فالو اپ اقدامات نہ کرنے پر کہا کہ اگر وزارت آبی وسائل نے کمیٹی کی ہدایات کو نظر انداز کرنا جاری رکھا تو معاملہ ایوان میں لے جایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم دستاویزی شواہد کے ساتھ بروقت اور درست تعمیل کی رپورٹ کی توقع کرتے ہیں اگر ہماری سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تو ہمارے پاس اس معاملے کو ایوان میں لے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کے بورڈ آف گورنرز کی رکنیت کے لیے سینیٹر سعدیہ عباسی کی نامزدگی کے نوٹیفکیشن میں تاخیر پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے اجلاس میں چیئرمین واپڈا کی غیر موجودگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ چیئرمین واپڈا صرف سیکریٹری آبی وسائل کی اجازت سے ہی ہمیں بریفنگ دے سکتے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج کیوں موجود نہیں تھے۔کمیٹی میں بحث کا محور واپڈا کے بارے میں آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں رپورٹ کیے گئے 29 ارب 41 کروڑ روپے کے نقصانات تھے جو بار بار پوچھ گچھ کے باوجود غیر واضح ہیں۔سینیٹر شہادت اعوان نے احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکام کو وضاحت کرنی چاہیے کہ واپڈا کو اتنا بڑا نقصان کیوں ہوا اور کوئی انکوائری کیوں شروع نہیں کی گئی۔کمیٹی کی رکن سینیٹر سعدیہ عباسی نے آڈیٹر جنرل کی سالانہ آڈٹ رپورٹس کو مناسب طریقے سے حل نہ کرنے پرکہا کہ ان رپورٹس پر محکمے کا ردعمل ناکافی ہے، آڈیٹر جنرل کا کام تضادات کو اجاگر کرنا ہے، انکوائری کرنا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) یا ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کے وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے۔وزارت آبی وسائل نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی سال 2022-23 کی آڈٹ رپورٹ لازمی نہیں ہے۔ انہونے کہا کہ صرف آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی بنیاد پر انکوائری شروع نہیں کی جاسکتی۔ وزارت کے سکریٹری نے کہا کہ صرف ڈی اے سی یا پی اے سی ہی مزید تحقیقات کی ہدایت دے سکتے ہیں۔سینیٹرشہادت اعوان نے وزارت کے مؤقف پراصرار کیا کہ کمیٹی کو جوابات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اب تک بے ضابطگیوں کے خلاف کتنی انکوائریاں شروع کی گئی ہیں اور اس کے نتائج کیا ہیں؟کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں چیئرمین واپڈا کی بات سنی جائے گی جہاں انہیں آڈٹ رپورٹ اور اس کے نتائج پر مکمل بریفنگ دینی ہوگی۔سینیٹر اعوان نے وزارت کو ہدایت کی کہ ڈی اے سی انکوائری کی رپورٹ 15 دن میں پیش کی جائے اور پی اے سی انکوائری رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کی جائے۔ اجلاس میں سینیٹرز فیصل سلیم رحمان، پونجو بھیل اور سعدیہ عباسی کے علاوہ وزارت آبی وسائل، واپڈا، فیڈرل فلڈ کمیشن، کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پی سی آر ڈبلیو آراور دیگر متعلقہ محکموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔