بشار ا لاسد حکومت کے خاتمے کے بعد صرف شام کے پڑوسی ممالک کو ہی نہیں بلکہ ایران کو بھی اب ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے ۔ اب کیا ہونے جارہا ہے ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جوہر ذہن میں موجود ہے ۔ شام میں جو کچھ بھی ہوا ، دیکھنے میں اچانک ہی ہوگیا ہے ۔ مگر ایسا ہے نہیں ، اس کے تانے بانے طوفان الاقصیٰ سے جا ملتے ہیں ۔شام کی صورتحال پر گفتگو سے قبل طوفان الاقصیٰ پر ایک نظر ، اس کے بعد موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ ایک عام آدمی جو جانتا ہے وہ یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے مجاہدین نے اچانک اسرائیل پر حملہ کردیا ۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ اسرائیل کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ حماس کے مجاہدین نے اسرائیل کے دفاع کو تہس نہس کرڈالا ۔ وہ اسرائیل کے اندر 50 کلومیٹر تک گھس گئے اور 12 سو کے قریب یہودیوں کو نہ صرف مار ڈالا بلکہ اس کے 240 شہریوں اور فوجیوں کو کامیابی کے ساتھ یرغمال بھی بنا لیا ۔
یہاں فوری طور پر ایک سوال ذہن میں جنم لیتا ہے کہ کیا واقعی یہ حملہ اچانک تھا ؟ ایران ، لبنان ، غزہ ، اردن ، مصر ، شام اور عرب ممالک میں اسرائیل کا جاسوسی کا نیٹ ورک بہترین ہے ۔ انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ فون ، ای میل اور دیگر ذرائع سے ہونے والی جاسوسی نے اسرائیل کو ان ممالک میں ہر معاملے میں باخبر بنادیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت ، امریکا ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے جاسوسی کے وسائل بھی اسرائیل کو ہر طرح سے دستیاب ہیں ۔ ایسی صورت میں مہینوں بلکہ سال بھر سے ہونے والی تیاری کیسے اسرائیل کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ۔ اس بارے میں ہمیں بی بی سی پر موجود ایک رپورٹ بہت کچھ سمجھا دیتی ہے ۔
یہ رپورٹ ایلیس کوڈی نے بی بی سی اردو پر 17 جنوری 2024کو پوسٹ کی تھی ۔ اس رپورٹ میں ایلیس نے غزہ کی سرحد پر واقع واچ ٹاورز پر متعین خواتین گارڈز کی کہانی لکھی ہے جنہوں نے غزہ کے پار ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں مسلسل اپنے افسران کو آگاہ کیا مگر وہ "باوجوہ ” ان رپورٹوں کو نظر انداز کرتے رہے ۔ سرحد پر واقع واچ ٹاورز پر متعین ان خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ سرحد پر اسرائیل کی آنکھوں اور کان کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ایلیس لکھتی ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے ان خواتین کا یہاں سرحد پر ایک ہی کام تھا۔ وہ کام یہ تھا کہ وہ گھنٹوں سرحد کے ساتھ موجود نگرانی کے اڈوں میں بیٹھ کر کسی بھی مشکوک چیز کے آثار تلاش کرتیں اور اس کی اطلاع انتظامیہ کو کرتیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کے حملوں سے پہلے ان خواتین نے سرحد کے ساتھ مشکوک حرکات دیکھنا شروع کر دی تھیں۔ جیسا کہ چھاپہ مار ٹیموں کی مشقیں، لوگوں کو یرغمال بنانے کی فرضی مشقیں وغیرہ۔نوا (شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) ایلیس کو بتاتی ہیں کہ وہ جو کچھ سرحد کے پار دیکھ پا رہی تھیں وہ اس کی اطلاع باقاعدگی سے انٹیلیجنس اور سینیئر افسران کو کر رہی تھیں اور اس سے زیادہ وہ کچھ کرنے سے قاصر تھیں کیونکہ اُن کا کام صرف مشاہدہ کرنا اور اس کی اطلاع افسران کو کرنا تھا۔
ان میں سے کچھ خواتین کو واضح انداز میں معلوم ہو چکا تھا کہ حماس کسی بڑے منصوبے کی تیاری کر رہی تھی اور نوا کے الفاظ میں ’یہ سب ایسا تھا کہ جیسے ایک غبارہ ہو جو پھٹنے کے قریب ہو۔‘ایلیس کے مطابق ان میں سے کچھ کے لیے تو یہ بات ایک مذاق بن کر رہ گئی تھی۔ یہ سب سرحد پر قائم نگرانی کے اڈوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے یہ مذاق کیا کرتی تھیں کہ ’جب حملہ ہو گا تو اُس دن اور حملے کے وقت ڈیوٹی پر کون ہو گا؟‘ایلیس اپنی رپورٹ میں لکھتی ہے کہ یہ خواتین اکیلی نہیں تھیں جنھوں نے اس خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ اب جیسے جیسے اس معاملے سے متعلق مزید شہادتیں جمع ہو رہی ہیں، اسرائیلی ریاست کے خلاف غصے اور اس کے ردعمل پر سوالات بڑھتے جا رہے ہیں۔جب حماس نے حملہ کیا تو غزہ کی سرحد سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نہال اوز سینٹر پر موجود خواتین اہلکارں نے اپنے مشترکہ واٹس ایپ گروپ پر ایک دوسرے کو الوداع کہنا شروع کر دیا۔
نوا، جو ڈیوٹی پر نہیں تھیں اور گھر میں یہ پیغامات پڑھ رہی تھیں، کہتی ہیں کہ جس حملے کا انھیں طویل عرصے سے ڈر تھا وہ اب دراصل ہو رہا تھا۔فوج میں خدمات انجام دینے والی نوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم انھیں ہر روز مشق کرتے ہوئے دیکھتے تھے، یہاں تک کہ ان کے پاس ایک ماڈل ٹینک بھی تھا، جسے وہ سنبھالنے یا اس پر قبضے کرنے کی مشق کر رہے تھے۔‘وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’ان کے پاس باڑ پر نصب ہتھیاروں کا ایک ماڈل بھی تھا اور وہ یہ بھی دکھاتے تھے کہ وہ اسے کس طرح اڑا دیں گے، اور اس بات کو مربوط کریں گے کہ فورسز پر کس طرح قابو پایا جائے اور قتل اور اغوا کیا جائے۔‘بی بی سی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ ایک اور اہلکار ایڈن ہدر کو یاد ہے کہ اپنی سروس کے آغاز میں حماس کے جنگجو بنیادی طور پر اس حصے میں فٹنس کی تربیت لے رہے تھے جس کی وہ دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ لیکن اگست میں فوج چھوڑنے سے چند مہینوں پہلے، انھوں نے حماس کی ان مشقوں میں ایک واضح تبدیلی محسوس کی۔‘سرحد کے ساتھ ایک دوسرے اڈے پر، گال (فرضی نام) کہتی ہیں کہ جیسے جیسے تربیت میں اضافہ ہوا، وہ بھی یہ سب دیکھ رہی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے نگرانی کرنے والے ایک غبارے کے ذریعے دیکھا کہ سرحد پر ایک خودکار اسرائیلی ہتھیار کی نقل تیار کی گئی ہے جو ’غزہ کے وسط میں‘ بنایا گیا ہے۔‘ہم ہر ایک کو چہرے سے جانتے ہیں۔ اچانک باڑ کے نزدیک ہمیں پرندے پکڑنے والے اور کسان نظر آنے لگے جنھیں ہم نہیں جانتے تھے۔ ہم نے انھیں نئے علاقوں میں منتقل ہوتے دیکھا۔ ان کا معمول بدل گیا تھا۔‘ نوا کو یہ بھی یاد ہے کہ وہ باڑ کے ’قریب اور قریب تر‘ ہو رہے تھے۔وہ کہتی ہیں ’وہ اپنے پنجرے باڑ پر رکھ دیتے تھے۔ یہ عجیب ہے کیونکہ وہ پنجروں کو کہیں بھی رکھ سکتے تھے۔ کسان ایک ایسے علاقے میں باڑ کے بالکل قریب بھی جاتے جو زرعی نہیں تھا۔ سسٹم کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور یہ دیکھنے کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اسے کیسے عبور کر سکتے ہیں۔ یہ ہمیں مشکوک لگ رہا تھا۔‘ ’ہم ہر وقت اس کے بارے میں بات کرتے تھے۔‘ ’ہم نے جس کسی سے بھی بات کی وہ اس کی اہمیت سے واقف نہیں تھا جو ہم دیکھ رہے تھے۔‘ رونی کہتی ہیں کہ انھیں ’کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ان کی جانب سے بھیجی گئی رپورٹس حقیقت میں گئیں کہاں۔‘ ’ہم نے جو کچھ رپورٹ کیا تھا اور جو کچھ بتایا تھا اس کے بارے میں ہمیں کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
نوا کا کہنا ہے کہ ’وہ گن نہیں سکتی تھیں کہ انھوں نے کتنی بار رپورٹ درج کروائی۔ یونٹ کے اندر ہر ایک نے اسے سنجیدگی سے لیا مگر یونٹ سے باہر کے لوگوں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔‘ الیانا کو یاد ہے کہ ’آخری مہینوں کے دوران اس نے بار بار کہا کہ جنگ ہو گی، آپ دیکھیں گے ‘انھیں اس وقت معلوم نہیں تھا کہ یہ واحد گروہ نہیں جو خدشات ظاہر کر رہا ہے۔ ان کا مشاہدہ انٹیلیجنس کا واحد ذریعہ نہیں تھا جو اس وقت موصول ہوا۔ایلیس کی اس رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ بھی اچانک اور غیر متوقع نہیں تھا جیسا کہ دنیا کو بتایا گیا ۔ بی بی سی کی اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف یہ خواتین گارڈز ہی حماس کی تیاریوں کے بارے میں نہیں بتا رہی تھیں بلکہ دیگر ذرائع بھی اس بارے میں بتا رہے تھے ۔ بی بی سی کی اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اخبار نیو یارک ٹائمز کی خبر کے مطابق سات اکتوبر سے ایک سال قبل اسرائیلی حکام کو حماس کے منصوبے کا علم ہوا تھا ۔ اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کے یونٹ 8200 کے سابقہ تجزیہ کار نے حماس کے حملے سے تین ماہ قبل متنبہ کیا تھا کہ حماس نے سخت مشقیں کی ہیں ۔
آخر اسرائیلی قیادت کیوں تمام تر اطلاعات کے مطابق خاموش بیٹھی تھی ۔ اس نکتہ پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔