اربن یونٹ نے پنجاب کی زرعی زمینوں کے کنکریٹ کے ڈھانچے میں تبدیل ہونے کا ایک بہت اہم نقشہ تیار کیا ہے جو کہ پچھلے30 سالوں کی سیٹلائٹ تصاویر اور نیورل نیٹ ورکس کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیاہے ۔ یہ نقشہ تیزی سے برباد ہوتی زرعی زمینوں کےخطرناک رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ سبز جگہوں کا یہ نقصان سموگ کی بڑھتی ہوئی سطح اور خراب ہوا کے معیار کے پیچھے ایک اہم عنصر ہے۔
سائنسی تحقیق کہتی ہے کہ ایک ہیکٹر زرعی زمین پر کسی بھی قسم کی تعمیر کرنے سے 15 ٹن حیات (زندگی) کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جاتا ہے جو کہ اس زرعی زمین کی مٹی میں موجود ہوتی ہے اور اس کی زرخیزی کا باعث ہوتی ہے۔برصغیر کا میدان دنیا کے زرخیز ترین میدانوں میں سے ایک جس پر ہم تیزی سے لینٹر ڈالتے جا رہے ہیں حالاں کہ انگریز برصغیر کو” سونے کی چڑیا “ اور اس کے میدانی علاقوں کو دنیا کی “فوڈ باسکٹ کہا کرتے تھے۔
برصغیر کے میدانی علاقوں خصوصا پنجاب اور سندھ کی دریاؤں کے ساتھ کے میدانی علاقے زراعت کے لئے انتہائی موزوں سمجھے جاتے ہیں جہاں مٹی کے اندر زراعت کے لئے موزوں نملیات قدرتی طور پر مل جاتے ہیں۔دنیا بھر میں زمین کو زراعت کے قابل بنانے کے لئے ہزاروں جتن کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ہم پہلے سے موزوں زرعی زمینوں کے اوپر گھر اور سڑکیں بنا کر سونے سے زیادہ قیمتی یہ زرخیز زمینیں دھڑا دھڑ ہاوسنگ اسکیموں میں تبدیل کرتے جا رہے ہیں۔پوری دنیا میں عمودی رہائش میں رہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی تک افقی رہائش ہی ملک کے شہری علاقوں حتی کہ لاہور اور کراچی کے بڑے پڑھے لکھے شہریوں کی بھی پہلی چوائس ہے جس کے لئے نئے نئے بحریہ ٹاورز اور ڈی ایچ اے زرعی زمینوں پر وجود میں آرہے ہیں جن کی دل کھول کر میڈیا میں تشہیر ہوتی ہے لیکن کوئی حکومتی ادارے یا پالیسی اس کو کنٹرول کرنے کے لئے سامنے نہیں آرہی۔
دنیا کی عقلمند قومیں تو زرعی پیداوار کے کئے بھی عمودی فارمنگ پر چلے گئے ہیں جہاں پر کئی منزلہ کھیت کنٹرول ماحول میں بنا کر زرعی پیداوار کو بڑھایا جا رہا ہے جب کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ بھی زرعی زمینوں پر بنے ہوئے ایک ایک کنال اور دس مرکہ گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ایک پاکستانی انجنئیر دوست حال ہی میں انڈونیشیا میں ایک ڈیم پراجیکٹ پر کام کے سکسلے میں گئے اور جب جکارتہ کی ایک بلند عمارت کی چودہویں منزل پر رہائش ملی تو دفتر والوں کو صاف انکار کردیا کہ میں نے زمین سے اتنا اوپر نہیں رہنا۔جب تک دو منزلہ گیسٹ ہاؤس میں رہائش نہ ملی وہ مطمئن نہ ہوئے۔
مجھے جتنی بار بھی ملک سے باہر تعلیم کے لئے یا کام کی غرض سے جانا ہو، کبھی زمین پر رہنا نصیب نہ ہوا۔ پہلی دفعہ سنہ 2000 میں ہالینڈ پہنچے تو ایک 17 منزلہ عمارت کے 12 ویں فکور پر رہائش نصیب ہوئی۔ہم پوری یونیورسٹی کے لڑکے اس ایک بلند و بالا میں سما جاتے تھے جب اس کے مقابلے میں ہماری انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور میں طلبہ کی رہائش کے لئے ایک درجن سے زیادہ ہاسٹل صرف لڑکوں کے لئے ہیں۔اسی طرح ملائشیا کے شہر کولالمہور میں کام کے دوران ایک 20 منزلہ عمارت کے 13 ویں فلور پر رہتے رہے جو کہ ایک عام سی بات تھی۔تاہم ہمارے ہاں ابھی تک عمودی عمارتوں میں رہائش کا رجحان سوائے کراچی شہر کے ابھی تک عام نہیں ہوا۔ لینڈ مافیا اور پراپرٹی بزنس والے بھی اس سے فائدہ اٹھا کر نے نئی اسکیمیں بنا کر لوگوں کو طرح طرح کے لالچ دے کر بیوقوف بنا رہے ہیں لیکن اصل ظلم یہ ہے کہ ہماری زرعی زمینوں پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے اور مستقبل کی زرعی پیداوار قربان کرکے صرف پیسے بنانے پر توجہ ہے۔پانی اور جنگلات کے بحران کے بعد یہ ایک یقینی ان دیکھا غذائی بحران بلکہ قحط ہے جو کہ ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اور زیادہ تیز رفتاری سے ہماری طرف نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ ہم ہاوسنگ اسکیمیں بنا کر اس جلتی پر خود تیل ڈال رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔تجویز:۔۔۔۔۔۔۔۔
۱- ملک کی تمام زرعی زمین کی نقشہ سازی کرکے اس کی زرعی اور شہری زمین کی زوننگ کردی جائے اور اس زرعی زمین کو ہرقسم کی تعمیرات پر پابندی ہونی چاہئیے -شہروں، قصبوں اور دیہات کی مستقل بنیادوں پر حد بندی کرکے وہاں عمودی عمارت میں رہائش کو عام کیا جائے۔